Sunday, April 30, 2017

Helplessness...!!



 Helplessness

ہم کہاں تک بچ سکیں گے۔۔۔؟؟؟
ہم کہاں تک بھاگ سکیں گے ۔۔۔؟؟؟
"یہ نارتھ کراچی کے ایک اسکول کا ذکر ہے ،ایک خاتون ٹیچر ساتویں کلاس میں پڑھانے گئیں اور ایک طالب علم کو کسی بات پر ڈانٹ دیا، یہ عام سی بات ہے، اسکول کیا یونی ورسٹیز میں اساتذہ کسی بات پر ناراض ہو کرڈانٹ ڈپٹ کر ہی دیتے ہیں۔ آپ بھی کہیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی لیکن بات ہوئی اور ایسی ہوئی کہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگی۔ اس بچے نے ڈانٹ کھا کر ٹیچر سے بدلہ لینے کا سوچ لیا

اور وہ بدلہ لینے کے لیے دوسرے روز سب کی نظر بچا کر ٹیچرز کے بیت الخلاء میں چلا گیا۔ اس نے اپنا سیل فون سائلنٹ کرکے ریکارڈنگ کا بٹن دبایا اور اسے وہاں چھت کے لینٹر پر اس طرح چھپا کر رکھ دیا کہ کسی کو دکھائی نہ دے۔ فون کی بیٹری نے جب تک ساتھ دیا بیت الخلاء استعمال کرنے والوں کی ریکارڈنگ ہوتی رہی لیکن ہوا یہ کہ یہ فون اس مجرمانہ ذہن کے طالب علم کے بجائے کسی اور کے ہاتھ لگ گیا اور اس نے وہ ریکارڈنگ سوشل میڈیا کے ایک ایسے گروپ میں شیئر کردی جس میں ریکارڈنگ کا حصہ بننے والے بھی تھے۔ اب آپ سوچیے کہ ان ٹیچرز پر کیا بیتی ہو گی اور کیا ہوا ہوگا ‘‘ محمد اسعد نے اپنی بات مکمل کی اور پیشانی پر پریشانی کی لکیریں لیے چپ ہوئے کہ سیلانی کچھ کہے لیکن سیلانی گیا۔
اٹھ کا مجسمہ بنا محمد اسعد کو دیکھے جا رہا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک ساتویں جماعت کا طالب علم اس طرح کی مجرمانہ ذہنیت بھی رکھ سکتا ہے اورصرف رکھ ہی نہیں سکتا، عمل بھی کر سکتا ہے۔
’’ناقابل یقین ۔۔۔ایسا بھی ہو رہا ہے.‘‘ بالآخر سیلانی کے لب ہلے
’’بہت کچھ ہو رہا ہے اتنا کہ میری اور آپ کی سوچ بھی وہاں نہ پہنچ سکے۔ ہم نے کراچی کے ڈھائی ہزار طلبہ پر ریسرچ کی۔ اسے مکمل کرنے میں پانچ برس لگے۔ اس دوران جو کچھ سامنے آیا وہ ایسا چونکا دینے والا ہے کہ میں آپ سے رابطہ کیے بغیر نہ رہ سکا۔‘‘ محمد اسعد فری لانس صحافی اور ریسرچر ہیں، کسی وقت میں روزنامہ امت میں ہوا کرتے تھے، پھر گردش دوراں انہیں امت سے لے کر جانے کہاں کہاں پھرتی رہی لیکن اس پھیر میں وہ اسعد کا مزاج اور مقصد نہ پھیر سکی۔ محمد اسعد زمانے کے چلن ا ور سماج کے رویوں سے نگاہ نہ ہٹا سکے۔ سماج ،معاشرے میں بھی بچے ان کی ریسرچ اور توجہ کا مرکز ہیں، آج کل ’’فارایور‘‘ نامی این جی او سے وابستہ ہیں اور اسی این جی او کی ریسرچ کے نتائج اور ڈھیر ساری پریشانی لے کر پریس کلب میں سیلانی کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ۔
اسعد کہنے لگے ’’ہم نے یہ تحقیق 2012ء میں شروع کی تھی، کراچی کے تین ایسے علاقوں کا انتخاب کیا جہاں لوئرمڈل، مڈل اور اپرمڈل کلاس رہائش پذیر ہے، ساتویں کلاس سے انٹر کے تقریبا ڈھائی ہزار طلبہ سے رابطہ کیا، ان سے سوالات کیے گئے، انٹرویو کیے گئے اور انہوں نے جو جو بیان کیا، جو جو بتایا، وہ لرزا دینے کے لیے کافی ہے‘‘۔
محمد اسعد نے اپنی بات آگے بڑھائی اور کہنے لگے ’’تین باتیں واضح طور پر سامنے آئیں کہ بچوں میں باغیانہ خیالات، مجرمانہ ذہنیت کے رحجانات زیادہ ہو تے جا رہے ہیں اور سیکس کی خواہش بھی بڑھ رہی ہے ‘‘۔
’’بچوں میں سیکس کی خواہش؟‘‘
’’جی بچوں میں، ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ اب بچوں میں بلوغت کا عمل جلد ہونے لگا ہے اور اس پر پھر یہ انٹرنیٹ کی آسانیاں، اب تو آپ سیل فون ہاتھ میں لے کر سب کچھ دیکھ سکتے ہیں، کسی پرائیویسی کی ضرورت بھی نہیں، اور یہ آزادی جنسی تقاضوں پر مسلسل پٹرول چھڑک رہی ہوتی ہے، اوپر سے مخلوط تعلیمی نظام رہی سہی کسر پوری کر رہا ہے ۔‘‘
’’بالکل درست کہہ رہے ہیں، مجھے ابھی کچھ دن پہلے ہی ا ک ایسے اسکول کا پتہ چلا جہاں کافی سخت ڈسپلن ہے۔ نویں کلاس کی بچی کی طبیعت خراب ہوئی، اس کے پیٹ میں شدید درد ہو رہا تھا، ٹیچرزڈاکٹر کے پاس لے گئے، اور ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد اس کے ماں باپ کو بلوا کر بتایا کہ آپ کی بچی تو حاملہ ہے۔۔۔‘‘
’’ایسا ہی ہے، صورتحال بڑی خوفناک بلکہ بھیانک ہے.‘‘ اسعد نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے تائید کی.
’’اچھا! آپ لوگوں نے اس پر سوچا، غور کیا کہ وجوہات کیا ہیں؟ ‘‘
’’سیلانی بھائی! بہت سے عوامل ہیں۔ آپ حیران ہوں گے اگر میں یہ کہوں کہ ہمارا کھانا پینا ہمارا دشمن بن گیا ہے، ہم لقمہ نہیں لے رہے ہوتے، اپنا دشمن حلق سے اتار رہے ہوتے ہیں۔ یہ جنک فوڈز، برگر، چائینیز کھانے جن میں خاص کر سوڈیم گلوٹو میٹ شامل ہوتا ہے۔۔۔‘‘
’’یہ کیا بلا ہے؟‘‘
’’آسان لفظوں میں اجینو موتو‘‘
’’اوہ ۔۔۔۔لیکن اجینوموتو کا ان سب سے کیاواسطہ؟‘‘
’’یہی تو، اس میں کچھ ایسے اجزاء ہوتے ہیں جو ہمیں بہت زیادہ حساس کر دیتے ہیں، میں کیسے سمجھاؤں؟ یوں سمجھ لیں کہ جنونیت سی آجاتی ہے، میں آپ کو ہاتھ بھی لگاؤں تو ایک دم سے غصہ آجائے گا، جی چاہے گا تہس نہس کر دوں۔ پھر سب سے بڑی وجہ والدین اور بچوں میں بڑھتاہوا فاصلہ ہے۔ ہم بچوں کو بہترین اسکول، یونی فارم، لنچ بکس اور آسائشیں دینے میں لگے رہتے ہیں، اس چکر بھاگتے رہتے ہیں لیکن بچوں سے دور ہوجاتے ہیں، انہیں توجہ نہیں دے پاتے. کیا آپ یقین کریں گے کہ کلاس سکس کی بچی کو اسکول میں پیریڈز ہو جائیں اور اس کی ماں کو فون کیا جائے کہ آ کر بچی کو اسکول سے لے جائیں۔ یعنی ماں اپنی بیٹی کے حال سے اس حد تک بے خبر ہے، اور ماں بیٹی میں ایسا فاصلہ ہے کہ بچی ماں سے بھی ڈسکس نہیں کر پا رہی۔ ہماری بچوں کے والدین سے بھی بات ہوئی. ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو اچھا پڑھانے لکھانے، سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے مشین بن کر جینا پڑ رہا ہے. کچھ اصحاب تو ایسے بھی ملے کہ جب ان سے بچے کے بارے میں بات کی گئی کہ ان کا بچہ بے راہ روی کاشکار ہو رہا ہے، غلط فلمیں دیکھ رہا ہے، غلط جگہ اٹھ بیٹھ رہا ہے، تو بےبسی سے کہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں لیکن کیا کریں؟ کتنا سمجھائیں؟ اب منکر نکیر بن کر تو اس کے کاندھوں پر بیٹھنے سے رہے۔‘‘
اسعد کا کہنا تھا کہ بچوں میں ہٹ دھرمی، ضد یا باغیانہ خیالات تیزی سے بڑھتے دیکھے جا رہے ہیں. ’’معاشرے کی اپنی روایات اور قدریں ہوتی ہیں جن کا سب ہی کو پاس رکھنا ہوتا ہے. آج کل کے بچے کہتے ہیں ہم انہیں نہیں مانتے، ان میں ایک طرح کا باغیانہ پن دیکھا جا رہا ہے۔ دوسرا مسئلہ مجرمانہ ذہنیت ہے. میں ایک اسکول میں کنسلٹنٹ بھی ہوں، کام ہی ایسا ہے کہ طلبہ سے دوستی کرنا پڑتی ہے. ایک دن مجھے میٹرک کلاس کے ایک طالب علم نے پیشکش کی کہ سر پیزا کھانا ہے؟ میں نے کہا کہ ضرور کھانا ہے لیکن تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟ جواب میں ہنس کر کہنے لگا کہ پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں، پیزا آرڈر کریں گے، ڈلیوری بوائے آئے گا، ہم دوست اس سے پیزا بھی چھین لیں گے اور موبائل بھی۔ موبائل ساتھ والی سرینا مارکیٹ میں بیچ دیں گے اور پیزا انجوائے کریں گے۔ اب اس کا ذہن دیکھیں، میں یہ نہیں کہتا کہ اس نے ایسا کبھی کیا یا نہیں لیکن اس نے ایسا سوچا‘‘۔
اسعد کی باتوں نے سیلانی کو 2015ء میں گلشن فاطمہ اسکول سولجر بازار کا وہ 16 سالہ طالب علم نوروز یاد آگیا جس نے اپنی 15 برس کی محبوبہ کو گولی مار کر خودکشی کر لی تھی۔ پولیس کے مطابق صبا اپنے بیگ میں گھر سے پستول چھپا کر لائی تھی، اس ہی نے نوروز کو پستول دیا کہ ہم ساتھ جی نہیں سکتے تو کیا ہوا مر تو سکتے ہیں، اور پھر ایسا ہی ہوا۔
اسعد بتائے جا رہا تھا اور سیلانی ہکا بکا سنے جا رہاتھا
’’تقریبا پینتالیس فیصد بچوں میں مجرمانہ ذہنیت، جنسی خواہشات اور باغیانہ پن کے اثرات پائے گئے اور یہ پینتالیس فیصد کی شرح بہت ہوتی ہے، سمجھیں یہ خطرے کی گھنٹی ہے، اسی لیے میں دوڑا دوڑا آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ کالم لکھیں، کچھ بھی کریں، یہ گھنٹی بجا دیں کہ خدارا! اپنے بچوں کی خبر لو یہ ہا تھ سے نکلے جا رہے ہیں ،ایسا نہ ہو کہ کل کو ہاتھ ملتے نظر آؤ‘‘۔
محمد اسعد کے لہجے سے فکر مندی اور تشویش عیاں تھی، وہ پریشان ہو کر سیلانی کے پاس آیا تھا اور اب سیلانی پریشان تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے. بچوں کو ہم اپنا آنے والاکل، مستقبل کا معمار اورجانے کیا کیا کہتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ہم کر کیا رہے ہیں؟ کتنی توجہ دے رہے ہیں، کتنا خیال رکھ رہے ہیں؟ انہیں کتنا وقت دے رہے ہیں؟ اس کا اندازہ اس ریسرچ سے ہو رہا ہے۔ فارایور کی یہ ریسرچ ملک کے سب سے بڑے شہر میں کی گئی، اس کا اطلاق ملک کے بیس پچیس شہروں میں تو ہو ہی سکتا ہے کہ شہری علاقوں میں کم و بیش ایسے ہی حالات ہیں۔ والدین سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے صبح سے رات تک کام کرنے والی مشین بنے رہتے ہیں، کسی نے کرائے کے مکان سے اپنا مکان میں منتقل ہونا ہوتا ہے اور کسی نے موٹرسائیکل کو کار سے بدلنا ہوتا ہے، کوئی لیاقت آباد سے گلشن اقبال جانے کی چاہ رکھتا ہے اور اسی تگ و دو میں بچوں کو وقت نہیں دے پاتا۔ اس پر مزید ظلم یہ کہ بچوں کو میڈیا کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ وہ کیا دیکھ رہے ہیں؟ کیوں دیکھ رہے ہیں؟ اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں؟ کسی کو فکر نہیں ہوتی۔ بچوں کے کچے ذہنوں تک سب سے آسان رسائی میڈیا کی ہے اور الیکٹرانک میڈیا کا حال تو یہ ہے کہ اب کسی بھی ایک نیوز چینل پر بچوں کے لیے کوئی ایک پروگرام نشر نہیں ہوتا، آپ چینل گنتے چلے جائیں اور تلاش کرتے رہیں، کوئی ایک پروگرام نہیں ملے گا۔ ایک وقت تھا صرف ایک پی ٹی وی ہوتا تھا اور وہ اس سے بچوں کے وہ شاہکار پروگرام نشر ہوتے تھے کہ بچوں کی نظریں اسکرین سے چپک سی جاتی تھیں، کلیاں، الف لیلٰی، عینک والا جن کون بھول سکتا ہے. آج کمرشل ازم کے دور میں کون بچوں کو یاد رکھے، ہم نے انہیں مار دھاڑ، تشدد اور باغیانہ خیالات کے عکاس ڈراموں، فلموں کے حوالے کر دیا ہے جس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
سیلانی نے میز سے ریسرچ رپورٹ کا خلاصہ اٹھا لیا جس کے مطابق پینتالیس فیصد بچے ایسے تھے جن میں باغیانہ پن، مجرمانہ سوچ اور بڑھتی ہوئی جنسی طلب پائی گئی، پچیس فیصد بچے مجرمانہ سوچ اور پینتیس فیصد بچے باغیانہ خیالات کے ملے۔ سیلانی فارایور کی رپورٹ پر خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں بچوں کو توجہ دیں، ان کے اسکول جائیں، کلاس ٹیچر سے ملیں، ان کے دوستوں کے بارے میں پوچھیں، ان کی بے جا ضد کے آگے ہتھیارڈال کر اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ نہ دیں۔ اس عمر میں انٹرنیٹ کے ساتھ پرائیویسی کیمیکل کی آگ پر پٹرول کا چھڑکاؤ ہے۔ دیکھیں کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے، الرٹ رہیں اپنے ہاتھوں سے اپنا آنے والے کل کو ان شعلوں میں نہ جھونکیں جنہیں آپ کے اشک بھی کبھی بجھا نہ سکیں. سیلانی نے یہ سوچتے ہوئے ’’فار ایور‘‘ کی رپورٹ کو تشویش بھری نظروں سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔"
بشکریہ:رپورٹ " روزنامہ امت کراچی"
٭٭٭  مزید پڑھئے:  جدید بے حسی اور بہادر ماں
                               منافقت کہانی
                               عورت کی مکاری

No comments:

Post a Comment