Monday, January 18, 2016

Our Society



نیا دور اور ہمارا معاشرہ

دنیا ایک گلوبل ویلیج یعنی ایک گاؤں کی صورت اختیار کر چکی ہے ۔ روزانہ ہر دن ، ہر گھنٹے بعد بلکہ ہر لمحہ  میں مختلف قسم کی آراء اور  رپورٹس عام آدمی کی پہنچ میں آ چکی ہیں جنہیں کوئی غرض ہے بھی  یا نہیں بھی ہے دنیاوی  حالات و سیاسی  حالات  جاننے کی ، وہ بھی اس میڈیائی طوفان سے کسی طور بچ نہیں پا رہے ۔ ایسے میں وطنِ عزیز میں کیبل دور سے لیکر اس سوشل میڈیائی دور تک بہت سے ایسے واقعات اور بہت سے ایسے حادثات دیکھنے اور سُننے کو مل رہے ہیں جو کہ عام آدمی کی برداشت سے باہر ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں عام آدمی ان تمام تحقیقات، سیاسیات اور دنیاوی گلوبل کی کہانیاں دیکھ اور سن سن کر بے حسی کی زندگی کی طرف مائل ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس سے ہمارے معاشرے کو بے حس کرنے کے جو مغربی نتائج حاصل کرنے کی ایک مزموم مقصد یا کوشش تھی وہ بہرحال کامیاب ہو چکی ہے ۔

ٹی وی میڈیا یعنی کیبل میڈیا کی کہانی کیلئے آپ کیلئے ضروری تھا کہ آپ رک کر ، بیٹھ کر ، پابند ہو کر ٹی وی کے سامنے منہ اُٹھا کے بیٹھ جائیں، اپنے قیمتی وقت کا ازراہِ کرم خود سے گلہ گھونٹیں ۔ اور کھونٹے سے بندھے جانور کی طرح ٹی وی کی طرف منہ اُٹھائے بیٹھے رہیں ۔  جب دل نہ بھی چاہ رہا ہو تب بھی منہ اُٹھائے رکھیں ۔ اس ضمن میں لوگوں یعنی عام افراد کی توجہ حاصل کرنے کیلئے میڈیا کو دلچسپی اور لذت آور پروگراموں سے بھرپور کرنے کیلئے بہت سے ایسے چینل ترتیب دیئے گئے جن سے ہر وقت ہر لمحہ کوئی نہ ایسا پروگرام جو انسانی نفسیات کو پوری طرح آکٹوپس کی صورت جکڑ سکے ، وہ پروگرام بدرجہ اتم بنائے اور لگائے جاتے ہیں اور تاحال ان پروگراموں میں روز بہ روز اضافہ کیا جا رہا ہے ۔

پہلے کبھی کبھار یہ سننے میں آتا تھا کہ کسی کو کوئی نفسیاتی مرض لاحق ہو گیا ہے اور وہ ڈاکٹروں کے علاج یا پیروں کے علاج سے ٹھیک ہو گیا ہے ۔ مگر اب جتنی تیزی سے میڈیا اپنی رفتار بڑھاتے ہوئے پروگرام ترتیب دے رہا ہے اور مزید بھی پروگرامز ترتیب دیئے جائیں گے ۔ ان سے یوں لگتا ہے کہ پوری قوم کو ہی نفسیاتی معالجین کی ضرورت پیش آئے گی ۔ بے حسی ، چور بازاری ، جھوٹ ، فریب ، اور اب مزید یہ کہ جنسی جرائم کی وطنِ عزیز میں بھرمار ہو چکی ہے ۔ اور یہ دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ۔ چند دن پہلے ایک واقعہ لاہور کے کسی علاقے میں ہوا تھا ، اور آج جب فیس بک آن کی تو راجن پور کی ایک معصوم بچی کے بیدردی سے آبروریزی اور قتل کی اندوہناک واردات دیکھ اور پڑھ کے بہت دکھ ہوا ۔ اور دل اچاٹ سا ہو گیا ۔ یہ سوچ بار بار دل و دماغ میں گونجنے لگی کہ آیا اس معصوم کا کیا قصور تھا جو اسے وحشت اور درندگی کا نشانہ بنا دیا گیا ۔ ہمارے ہاں ٹی وی ، کیبل وغیرہ نہیں ہے ۔ صرف انٹرنیٹ کی سہولت ہے ، وہ بھی اس لئے جو خاندان کے لوگ ملک سے باہر رزق کی تلاش میں سرگرداں ہیں ان سے رابطے کا ایک سستا ذریعہ ہے ۔ بس ، اسی لئے نیٹ کی دنیا سے ہی ہم لوگ مستفید ہوتے ہیں ۔ خیر تو بات ہو رہی تھی کہ وطنِ عزیز میں روز بہ روز بڑھتے ہوئے جرائم ۔

ضیاء الحق مرحوم کے دور میں " ڈش " نامی ایک میڈیا آیا تھا جس کو عام آدمی کی پہنچ سے دور رکھا گیا تھا  اور معاشرےمیں آج کے دور کی انارکی ،  دنگا فساد اور بے حسی کی حالت نہیں تھی ۔ کہیں پڑھا تھا کہ ضیاء الحق مرحوم کے دور میں دو واقعات ایسے لرزہ خیز ہوئے تھے کہ جن میں ضیاء الحق مرحوم نے بڑی چابک دستی سے انصاف فراہم کرتے ہوئے معاشرے کو ایک بہترین لگام ڈالی تھی ۔ ایک واقعہ تو  ضیا ء الحق کے حکومت سنبھالتے ہوئے پیش آیا تھا کہ جس میں ایک "پپو" نامی بچہ اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا ۔ اور ضیاء الحق نے اُس بچے کے چھ یا سات قاتلوں کو گرفتار کرکے فوری پھانسی دی تھی ۔ 

دوسری دفعہ ضیاء الحق کے آخری دور میں ایک بچہ قتل ہوا اور اس کے قاتل کو فیصل آباد دھوبی گھاٹ میں سرِ عام پھانسی دی گئی تھی ۔  جس سے ایک طویل وقت تک ایسے کسی معاملے کی دوبارہ کسی کو جرات نہیں ہوئی تھی ۔ حتیٰ کہ ضیاء شہید کے دور کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کے پہلے دور تک بھی معاشرہ میں کافی سکون رہا تھا۔ مگر اب جس طرح ہماری حکومتیں میڈیا کو آزادی کے نام پہ کھلی چھوٹ دے کر خود سکون سے اپنی حکومتی کاموں میں بے طرح مصروف ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اس میڈیائی بھیڑیئے کو کوئی روکنے ٹوکنے والا اور کوئی بھی لگام دینے والا جیسے ہے ہی کوئی نہیں ۔

1996ء کے آخر میں کیبل کی اُڑتی ہوئی خبریں ہم نے بھی اپنے گاؤں میں سُنی تھیں ۔ اور پھر کوئی زیادہ نہیں ، بلکہ کم وبیش ایک سے ڈیڑھ سال میں ہی اس نئے ترقی کے اژدھے کا گاؤں میں یوں ادراک ہوا کہ جس کسی بازار اور دکان کے پاس سے گزرتے تو لچر اور بے ہودہ قسم کے نغمات اور گانوں کی کان پھاڑ آوازیں گونج رہی ہوتی تھیں ۔ پہلے پہل یہ کیبل سسٹم بازاروں میں آیا اور پھر گھروں میں ۔ پھر اس کو ترقی کی منزل سمجھتے ہوئے ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہو گیا ۔ اور کارڈ والے موبائل کی آمد ہو گئی ۔ اب مزید آسانی یہ ہو گئی کہ کان میں لگے ہوئے ہیڈفون سے جو مرضی سنو اور کارڈ میں جس طرح کی مرضی فلمیں یا گانے یا مجرے ریکارڈ کرو اور چلتے پھرتے سنو اور ساتھ ساتھ کام بھی کرو ۔ اس سے کام میں بھی آسانی محسوس کی گئی اور ساتھ میں لچر پن کیلئے مخصوص یا چھپ کے دیکھنے یا گناہ کی لاشعوری خواہش بھی دم توڑ گئی ۔ اور یوں یہ سہولت ہر جگہ ، ہر وقت اور ہر لمحہ دستیاب ہو گئی ۔ جدھر سے گزرو ، بازاروں میں اونچی اور فحش آوازوں کیساتھ مجرے ، گانے ، طبلے سنائی دے رہے ہیں ۔ اور قوم ہاہا۔۔ہُو ہُو ۔۔ اور بدتمیزی کے ہُلڑ میں مصروف رزق کما رہی ہے ۔

رزق کو جو پاکیزگی حاصل تھی اور جس رزق کو پہلے " اللہ کا فضل" سمجھ کے کمایا جاتا تھا ۔ اب کیبل ٹی وی اور موبائل مجروں کیساتھ بدرجہ اتم کمایا جانے لگا۔ راستے میں چلتے ہوئے  "شی جوانانِ وطن" چوبیس میں پچیس گھنٹے موبائل پہ مصروف اپنی ذہنی صلاحیتوں کو گانوں باجوں کی نذر کرتے نظر آئے ۔

کسی جگہ کہیں کوئی لڑکوں کا گروپ بیٹھا اگر گپ شپ کر رہا ہے تو پاس سے گزرنے سے جو دو چار لفظ راہ چلتے سنائی دے گئے تو وہ انتہائی بے ہودہ اور غلاظت پہ مبنی ہوتے تھے ۔اسی طرح لڑکیوں نے بھی اس کارِ خیر سے مستفید ہونے کا ہنر جان لیا ۔ اور نتیجہ میں موبائل کمپنیوں کے "دن رات آفرز" والے پیکج متعارف ہو گئے ۔
  لو جی ۔۔۔۔

کیبل کے ساتھ ساتھ مزید لطف کہ اب گھنٹوں بات کرو اور وطنِ عزیز کی تمام لڑکیاں لڑکوں کی "فرینڈز " ہو گئیں ۔ کیبل کے ڈراموں نے نت نئے طریقے ڈراموں اور فلموں کے ذریعے گھر گھر پہنچا دیئے ، اور مزید اس پہ کہ مقدس رشتوں کی پامالی کے طریقے بھی ساتھ بتائے گئے ۔ جس سے وطنِ عزیز کے ایک شہر میں ایک بھتیجے نے چچی کیساتھ ناقابلِ بیان تعلقات استوار کرکے چچاکو قتل کر ڈالا۔

اسی طرح ایک لڑکی نے اپنے ابا حضور کو جنت کا راستہ دکھایا ، وجہ یہ تھی کہ ابا حضور نے بیٹی کے بار بار ہمسایوں کے گھر جانے اور ان کے لڑکے سے ملنے پہ منع کیا تھا۔ پھر  وطنِ عزیز کے ایک شہر میں ایک بچپن سے جوانی کی سیڑھی چڑھنے والے لڑکے لڑکی کی کہانی سامنے آگئی جنہوں نے والدین کے منع کرنے پر   "محبتی خودکشی " کا کامیاب سفر طے کیا  اور ہمیشہ کیلئے "محبت کے نام " امر ہوگئے ۔ 

کیبل کے ذکر کیساتھ اگر سوشل میڈیا کی تعریف نہ کی گئی تو گناہِ عظیم کا خدشہ ہے ۔ اس لئے اب فیس بکی میڈیا  عرف سوشل میڈیا اپنے عروج پہ ہے جس میں ہر لمحہ یوں تجزیئے اور رپورٹیں آتی ہیں کہ جیسے بارش میں گنجے کے سَر پر اولے پڑتے ہیں اورسوشل میڈیا پہ دن رات  ایسے ایسے "فیس بکی دانشور " پیدا ہورہے   ہیں کہ الامان الحفیظ کی گردان کرنے کو دل چاہتا ہے ۔ اس سوشل میڈیا میں چائنا نے بھی اپنا کارِ خیر پیچھے نہیں چھوڑا اور جو لوگ اٹھارہ بیس ہزار کا موبائل نہیں خرید سکتے تھے ، اُنہیں یہ سہولت چائنا نے فراہم کر دی ، اور آجکل دو ڈھائی ہزار کے موبائل میں بھی سوشل میڈیا کی تمام "ایپس " بھرپور طریقے سے کام کرتی نظر آتی ہیں ۔

جب اتنی ترقی کی راہیں ہم نے  1996ء کے کیبل نیٹ ورک سے لیکر اب گلوبل ویلیج کا حصہ بننے تک ہم نے کی ہیں تو پھر ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے بھی سخت قانون پاس کرنا اور لاگو کرنا ہو نگے ۔ کیونکہ من حیث القوم اس وقت ہمارا 80 سے 85 فیصد ان پڑھ ا ور جاہل ہے اور اس تیز رفتار میڈیا نے لڑکا لڑکی اور مرد عورت کے معاملات کچھ اس طرح اور اتنی زیادہ تفصیل سے بیان کر دیئے اور مزید بیان کئے جا رہے ہیں کہ عام آدمی میں سے بھی جھجک کا عنصر تقریباََ ختم ہو چکا ہے  اور اس پہ مستزاد یہ کہ سوشل میڈیا پہ غیر مسلم طاقتوں کے گروہ کے گروہ بے حیائی اور بداخلاقی پھیلانے میں ہر وقت مصروف ہیں ۔ جس سے نئی نسل کا بچنا تقریباََ ناممکنات میں سے ہے ۔ان میں سوشل میڈیا پہ گروپس کی شکل میں اورویڈیوز کی شکل میں عورت کو اتنا ہلکا اور برے کردار میں دکھایا اور بیان کیا جا رہا ہے کہ مردوں کے اس معاشرے میں عورت کو ذلت کا نشان بنانا شروع کر دیا گیا ہے ۔ ابھی چند دن پہلے ہی میڈیا نے ایک لڑکی کی عصمت لٹ جانے کے معاملہ کو سوشل میڈیا کے ثبوت پیدا  کرکے مرد کو بری الزمہ قرار دے دیا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں اب راجن پور کی ایک معصوم کلی کی عزت تار تار کرکے موت کی نیند سلا دیا گیا ہے اور ہمارے معاشرے کی بے حسی کہ سب کے سب اپنے مشاغل میں گم  نظر آتے ہیں ۔ میڈیا اس طرح روز بہ روز عورت کو پیش کر رہا ہے کہ جیسے وطنِ عزیز کی ہر عورت ہی کرپٹ اور بوالہوس کا شکار ہو چکی ہے ۔ حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ مگر میڈیا کے پھیلائے ہوئے اس "ننگے بازار " میں نوجوان نسل بری طرح تباہ حال نظر آتی ہے ۔ جس سے نئی نسل میں اعتماد کا فقدان اور جنسی بے راہ روی بہت تیزی سے پھیلتی جارہی ہے ۔ ہر وقت عورت کی آواز اور نئے نئے فیشن نے جہاں لڑکوں کو جنسی بے راہ روی  اور ہوس کا پیروکار بنایا ہے وہیں نئی نسل کی معصوم بچیاں جو کہ اس قوم کی مستقبل کی مائیں ہیں ، اپنے کردار کی مضبوطی میں ناکام نظر آتی ہیں ۔ اسی طرح ہر وقت اور ہر لمحہ شوخی، فحاشی اور سوشل میڈیا کی ہر نئی پوسٹ میں ہیجان خیزی ، موبائل کی دسترس اور مختلف ٹی وی چینلز پہ بار بار غلط اشتہارات اور ڈراموں فلموں میں مقدس رشتوں کے درمیان افئیرز اور ان افئیرز کے طور طریقے اور معلومات کے نام پہ مقدس رشتوں کی تذلیل نئی نسل کو بہت تیزی سے جنسی بے راہ روی کا شکار کر رہی ہے۔ اس وقت وطنِ عزیز میں معلومات کے نام پہ بارہ سے بائیس اور پچیس سال کے نوجوان طبقہ میں لڑکے لڑکی کے اعتماد کو کھو چکے ہیں  اور جس معاشرے میں مرد یا لڑکے عورت کے صحیح ہونے اور باکردار ہونے کا اعتماد کھو دیں ایسے معاشرے میں خاندانی نظام مکمل تباہ و برباد ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ بے راہ روی ، عدم اعتماد اور بغیر شادی کے تعلقات کی صورت میں نکلتا ہے ۔ ایسے میں جب کوئی مرد اپنی رفیقِ حیات اور اپنی زندگی کی ساتھی کے کردار کاہی یقین کھو دے تو آگے چل کے اولاد کیلئے بھی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے ۔یہ طرزِ عمل اب ہمارے معاشرے میں بھی تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اوراس نئے نظام سے  نکاح کے نظام اورنکاح کی سُنت ﷺ کو بری طرح مجروح کیا جا رہا ہے اور عورت کو محض ایک جنس کے طور پہ پیش کیا جا رہا ہے ۔ جس سے نکاح اور شادی کا نظام ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ اس لئے خدارا جاگیئے ، اپنے بچوں کی تحقیق کیجئے  اور معاشرے یا قوم کیلئے نہ سہی بلکہ اپنے خاندانی نظام کو ہی بچانے کی خاطر آگے بڑھیں اور اپنے بچوں کو تربیت کے اسلامی اصولوں کے دائرے میں لائیں ورنہ کل کا پچھتاوا واپس آپ کو آپکی اولاد کاکردار دوبارہ بنانے کا موقعہ فراہم نہیں کریگا۔ یہ یاد رکھیئے کہ "درخت اور انسان کا بچہ ، شروع سے سیدھا  اور سیدھے راستے پر رہے تو صحیح پروان چڑھتا ہے ورنہ نہ تو کبھی ٹیڑھے درخت کو سیدھا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی غلط انسان کی فطرت تبدیل کی جا سکتی ہے ۔"

حضرت عمر فاروقؓ کا قول ہے ، " اگر تمہیں یہ پتہ چلے کہ پہاڑ نے اپنی جگہ چھوڑ دی ہے تو مان لو، لیکن اگر کسی انسان نے اپنی فطرت اور عادت بدل لی ہے ، اس کا یقین مت کرو۔ "  
٭
٭٭٭ مزید پڑھیئے: سوشل میڈیا

No comments:

Post a Comment