Sunday, January 17, 2016

Qatil Behan : A True Story



وہ مجھے جیل میں ملی۔محترمہ بینظیر کے قتل کے بعد شروع ہونے والے ہنگاموں میں میرے چچا کے موٹر سائیکل سے بلوائیوں نے پٹرول نکال کے بس جلا دی تھی۔ اور اس ضمن میں میرے چچا کو جیل کی ہوا خوری سے فیض یاب ہونا پڑا۔" کرے کوئی تے بھرے کوئی " کا اعلیٰ قانون ہمارے ہی ملک میں تمام اقدار اور شُہرہ آفاقی کیساتھ موجود ہے اور شاید موجود رہے گا۔ خیر چھوڑیں۔ اصل بات اور اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔یہ آپ بیتی میں نہ لکھتا مگر اپنے پاکستانی سوشل میڈیا پہ کچھ ایسے معاملات نظر آئے جس کی وجہ سے میں نے اس "آنٹی " کی زندگی کی سب سے تلخ حقیقت آپ لوگوں کے سامنے اُن کی اجازت سے لکھی ہے مگر نام اور جگہ اُن کی عزت کی خاطر تبدیل کئے ہیں۔ لیجئے ، تمام حالات و واقعات اُنہی کی زبانی سنئے۔

میں نے اپنے اُس جر م کی سزا پائی جس کی شروعات میرے بھائی نے کی اور ایک طویل عرصہ میں اس جرم کی مجرم رہی اور پھر جب میری برداشت یا قوت ِ برداشت ختم ہو گئی تو میں نے اپنے ہی سگے بھائی کواُس کے بڑھاپے میں  قتل کر ڈالا اور اب میں خود بھی بڑھاپے کی منزل کی طرف رواں دواں ہوں۔ دنیا کے قانون میں تو مَیں نے سزا پا لی ، مگر آخرت کے قانون میں میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا، یہ میں نہیں جانتی۔
ہاں یہ حقیقت ہے کہ میں نے اپنے ہی سگے بھائی کو قتل کر ڈالا، کیونکہ اِس جرم کی پہلی سیڑھی وہ میرا بھائی ہی تھا، جس نے وہ جرم نہ کیا ہوتا جسکی میں بھی مجرم بنی تو آج میں صاف ستھری زندگی گزار کے بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوتی۔یہ جرم تب شروع ہوا ، جب میں ایک معصوم نازک ،شرم و حیاء سے گندھی ہوئی لڑکی تھی۔ میرے والدین  بہت سی محبتوں سےپروان چڑھا رہے تھے، کہ گاؤں سے اچانک میرے چچا کی وفات کی اطلاع آ گئی۔ ہم چار بہن بھائی تھے، میرا بڑا بھائی ، اُس کے بعد میں، پھر ایک اور چھوٹی بہن اور ایک بھائی تھا۔ اماں ابا  نے فیصلہ کیا کہ بڑے دونوں بہن بھائیوں کو گھر چھوڑ جاتے ہیں اور چھوٹے دونوں کو ساتھ لے جاتے ہیں تاکہ گھر اکیلا نہ رہے۔
 میں نے ماں سے تھوڑی ضد کی کہ بڑے بھائی کو ہی گھر پہ رہنے دو اور مجھے بھی ساتھ لے چلو، مگراماں نے یہ کہہ کر مجھے لے جانے سے انکار کر دیا کہ بیٹی تیرے امتحانات ہونے والے ہیں اور بڑے بھائی کے بھی۔ تم دونوں بہن بھائی گھر پہ رہو اور اپنے امتحانات کی تیاری کرو۔ ہمیں تو وہاں زیادہ دن لگ جائیں گے، کیونکہ ساری برادری آئی ہوئی ہوگی۔
 " کاش اُس دن میرے اماں ابا مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے ہوتے تو میں اتنی بربادی کی زندگی نہ گزارتی۔  " میرے فسٹ ائیر کے پیپر ز سر پہ تھے اور بھائی ایم-اے انگلش کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔ والدین نے کچھ نصیحتیں وغیرہ کر کے ہم دونوں بہن بھائیوں کو گھر چھوڑا اور خود گاؤں روانہ ہو گئے۔ میں اپنے امتحان کی تیاریوں میں پھر سے مصروف ہو گئی اور بڑا بھائی تو پہلے ہی کمرے میں گھنٹوں اپنی کتابوں میں سرکھپائی کرتا رہتا تھا۔ ہاں اب اماں کی جگہ میری یہ ڈیوٹی ہو گئی تھی کہ میں بھائی کیلئے کھانا  تیار کروں، پہلے اماں خود ہی سب کچھ کرتی تھی۔میں زیادہ پڑھاکو نہیں تھی، مگر سالانہ امتحانات کے نزدیک پڑھائی تو کرنا تھی، فیل ہونے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی، کچھ ویسے بھی میری فطرت شروع سے ایسی تھی کہ کوئی مجھ پر یا میرے  کام پر اعتراض نہ کرے۔
ابھی اماں ابا کو گھر سے گئے کوئی چار دن ہی ہوئے تھے کہ ایک دن دوپہر کے وقت بھائی گھر آیا اور ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولا اور کسی کو اندر بٹھا کے سیدھا کچن میں آیا اور ایک لفافہ کھانے کا ہاتھ میں لئے پلیٹیں نکالنے لگا۔ میں بھی برتنوں کی آواز سن کے کچن میں آ گئی تو بھائی کو دیکھا کہ وہ کھانے کی چیزیں ڈش میں لگا رہا ہے۔ میں نے کہا کہ بھائی ! لاؤ میں لگاتی ہوں، کیا دوست ساتھ میں ہے؟"
بھائی نے مختصر سا جواب دیا، "ہاں۔"
اور اتنا کہہ کر پھر ڈرائنگ روم کی طرف چلا گیا۔
میں نے کھانا لگا کے ٹرالی تیار کر دی اور پھر جا کے ڈرائنگ روم کا دروازہ ہولے سے کھٹکھٹا دیا تاکہ بھائی کو اطلاع ہو جائے کہ میں نے کھانے کے لوازمات لگا دیئے ہیں اور ٹرالی بھائی لے جائے۔ بھائی نے ڈرائنگ روم کا اندر کا دروازہ کھولا تو میں مڑنے والی تھی اور مڑتے مڑتے میری نظر اندر ڈرائنگ روم میں پڑی ، اور ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کوئی لڑکی اندر ہے، میں چونکی ضرور ، مگر بھائی کو محسوس نہ ہونے دیا۔ بھائی کا ویسے بھی دھیان ٹرالی کی طرف تھا، میں چونکہ مڑ چکی تھی اسلئے اب رک نہیں سکتی تھی۔ بھائی نے نظر اٹھائی اور شاید میرے دور جانے کا انتظار کرنے لگا تاکہ وہ مزید دروازہ کھول کر کھانے کی ٹرالی اندر لے جائے۔اور میں درزیدہ نگاہوں سے دیکھتی ہوئی کچن میں چلی آئی۔ اوردل جو زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ "ڈرائنگ روم میں بھائی کے ساتھ لڑکی۔" ہمارا کچن ڈرائنگ روم کے بلکل سامنے تھا۔ خیرتھوڑی دیر میں  اپنے اعصاب پہ قابو پاتے ہوئے اپنے آپ کو باور کرانے لگی کہ شاید میری نظر کا وہمہ ہے اور مجھے دھوکا ہوا ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بھائی کے ساتھ ڈرائنگ روم میں کوئی لڑکی ہو۔مگر تجسس تھاکہ کسی طرح ختم ہی نہیں ہو رہا تھا۔میں نے سوچنا شروع کیا کہ دیکھوں تو سہی کہ کیا معاملہ ہے؟ کہ اتنے میں بھائی پھر کچن کی طرف آتا نظر آیا تو میں یونہی برتن دھونے میں مصروف ہو گئی اور آٹا گوندھنے کی پرات کو ایسے رگڑ کے دھونے لگی کہ اب میں آٹا گوندھنے لگی ہوں۔
 بھائی کچن میں آیا اور بولا،" سعدیہ! دو کپ چائے بنا دوگی، میں اور میرا ایک دوست سٹڈی کر رہے ہیں، میں مارکیٹ سے آتے ہوئے کچن کا سامان لے آیا تھا، وہ بھی ابھی دیکھ کر بتا دو کہ مزید تو کچھ نہیں لانا کھانا پکانے کیلئے۔بعد میں ہمیں ڈسٹرب مت کرنا۔"
میں اچھا بھائی کہتی ہوئی  چیزیں دیکھنے لگی جو بھائی لایا تھا مگر میرے دل ودماغ تجسس سے بے حال ہو رہے تھے۔ میں نے چیزیں دیکھ کے بھائی کو" سب ٹھیک ہے " بولا اور پانچ منٹ میں چائے کی تیاری کا کہہ کے ساتھ ہی چائے بنانے لگی اور ساتھ ہی میں نے آٹا  ڈالتے ہوئے دیکھا کہ بھائی میری مصروفیت کو کنکھیوں سے دیکھ رہا ہے اور بے مقصد ہی کچن میں کھڑا ہے، میں اچانک بول پڑی، "بھائی کچھ اور چاہیے تو بتا دو، میں آٹا گوندھ کے سونے جا رہی ہوں ، سبزی اب شام میں بناؤنگی۔" تو بھائی بولا، "تم نےکھانا نہیں کھانا۔"
میں بولی،" نہیں بھائی، میں نے کالج میں سہیلیوں کے ساتھ کھایا تھا، اب بھوک نہیں ہے۔" اتنے میں چائے تیار ہو گئی اور بھائی چائے لے کے چلا گیا۔
میرے دماغ میں  وہ لڑکی اٹک سی گئی، نکلی تو وہ پہلے بھی نہیں تھی، اور ویسے بھی عورت کی یہ فطرت ہے کہ اُسے کسی بات کی لگن لگ جائے یا تجسس ہو جائے تو وہ پھر کسی بھی صورت پیچھے نہیں ہٹتی۔ میں نے آٹا گوندھا۔ باہر گیٹ کی طرف گئی، سُن گُن لی کہ شاید ڈرائنگ روم کے سامنے سے گزرتے ہوئے کوئی آواز آ جائے، مگر خاموشی تھی۔ میں اوپر کی منزل پہ جانے لگی تو اچانک میری نظر بالکنی پہ پڑی جس کے سامنے رخ پہ ڈرائنگ روم کا اکلوتا اگزاسٹ فین لگا ہوا تھا اور میری پُر تجسس طبیعت نے فوراََ اس اگزاسٹ فین کے سوراخ سے جھانکنے کا فیصلہ کر لیا، یہ محض ایک تجسس تھا، کوئی اچھی یا بری سوچ دل و دماغ میں نہیں تھی۔ بس میں یہ دیکھنا چاہ رہی تھی کہ آیا وہ لڑکی ہی میرے بھائی کے ساتھ ہے یا میرا وہمہ ہے۔ صحن پار کرکے میں بالکنی میں جا چڑھی اور اگزاسٹ فین کے سوراخ سے جونہی میں نے اندر جھانکا ، میرا دل و دماغ بھک سے اُڑ گیا۔ اندر میرا بھائی  اور وہ لڑکی ایسی حالت میں تھے،کہ میں سُن ہو کر وہیں جام ہو گئی اور میرا دل یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میری کھوپڑی میں بج رہا ہے۔ میں نے عورت اور مرد کا وہ پہلا تعلق اپنی جاگتی آنکھوں اور سُن دماغ کے ساتھ دیکھا۔میرے تصور میں بھی نہیں تھا اور دل کے کہیں کسی کونے کُھدرے میں بھی ایسی  ویسی کوئی بات نہیں تھی۔جو کچھ میں دیکھ چکی تھی۔ آخر میں نے گھومتے سر کے ساتھ جتنی دیر سُن رہی دیکھتی رہی اور بالکونی سے واپس پسینے میں شرابور اور خوف سے ڈری ڈری میں اپنے کمرےمیں واپس چلی آئی اور بستر میں گر پڑی۔پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا کہ میں کب عالم مدہوشی میں نیند میں چلی گئی۔
اچانک شور سے میری آنکھ کھلی، کچھ دیر تو سمجھ نہیں آئی اور پھر نیند سے بیداری پہ پتہ چلا کہ وہ ٹیلی فون کی گھنٹی تھی ، جس کے شور کیوجہ سے میں جاگی تھی۔میں نے ادھر اُدھر دیکھا، میں کمرےمیں اکیلی ہی تھی، نیند میں ہی میں نے ریسیور اٹھا لیا، اُس زمانے میں ابھی لائن فون ہی ہوتے تھے۔ موبائل کا زمانہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ میں نے ریسیور اٹھایا تو ابھی کچھ بول بھی نہیں پائی تو مجھے لڑکی کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی میرے بھائی کا ہلکا سا قہقہہ بھی ۔ میں اک دم الرٹ ہو گئی۔ سر تو درد سے پہلے ہی پھٹ رہا تھا۔ دیکھا کمرے میں اندھیرا تھا۔ اور فون پہ اب یہ نیا ماجرا میرا منتظر تھا۔میں سب کچھ بھول بھال کے لڑکی اور بھائی کی باتیں سننے لگی اور جوں جوں میں سنتی جاتی، میرا دل دماغ دھڑکنے لگے، پسینے چھوٹ رہے تھے، جذبات کی کیفیات میں جس طرح میرا بھائی اور وہ لڑکی ایک دوسرے میں گم تھے، میں بھی اُن کے ساتھ ایک غائبانہ حصہ بن گئی۔
ماؤتھ پیس پہ میری ہتھیلی اس بری طرح جم گئی تھی کہ شاید ماؤتھ پیس میں سے ہواکا گزر بھی نہ ہو رہا ہوگا، میرا اُنکی باتیں سن سن کے برا حال اور جذبات کی یہ پہلی کیفیات نے مجھے اندر سے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ اوپر نیچے دن کے واقعے اور اس رات میں فون پہ ان دونوں کی مدہوش گفتگونے میرے اندر کی لڑکی کو عورت بنانا شروع کر دیا، میں اندر ہی اندر جذبات کی ہلچل جوکہ میرے لئے بلکل نئی اور نووارد تھی، مجھے اندر سے آگ بنا دیا۔ آگ کی چنگاریاں میرے وجود سے اور پسینے سے میں ایک بھیگی ہوئی تڑپتی مچھلی بن چکی تھی۔ مجھے یہ بھی پتہ نہ چلا کہ کب فون بند ہوا۔ مگر جب میرے دروازے پہ "ناکنگ" کی آواز آئی تو میں ہوش کی دنیا میں واپس آئی، جلدی سے بے آواز ریسیور رکھا، اور پھر سے ٹیڑھی میڑھی سوتی بن گئی۔ دو دفعہ کی مزید ناکنگ کے بعد مجھےدروازہ کھلنےاور  بھائی کے قدموں کی چاپ اپنے کمرے میں سنائی دی، اور پھر چٹ کی آواز سے کمرے کی روشنی آن ہو گئی۔سامنے آئینے میں مجھے بھائی دروازے کے درمیان کھڑا بڑبڑاتا نظر آیا، " یہ تو ابھی تک سو رہی ہے، رات کا ایک بج گیا اور کھانے کو بھی کچھ نہیں پکایا۔"
اور پھر بھائی نے ایک دم آواز دے ڈالی،" سعدیہ! کتنا سونا ہے، کیا آج سوتی ہی رہو گی؟" اور میں ہولے سے نیند کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کروٹ لیکر اٹھ بیٹھی۔
"کیا وقت ہے بھائی؟" میں نے پوچھا
"رات کا ایک بج رہا ہے، تم تو گھوڑے بیچ کے سوئی ہو، کھانے کا بھی کچھ نہیں کیا۔" بھائی بولا
"ہیں۔۔۔ رات کا ایک بج گیا۔۔۔ میں تو شاید دن میں سوئی تھی، آپ نے مجھے جگایا ہی نہیں۔" میں حیرانی کی ایکٹنگ سے بولی
"چلو۔۔۔اب تم نے جو کرنا اور کھانا ہے ، وہ کر لو، میں تو ڈبل روٹی کھا کے لگا ہوں  سونے۔۔۔۔ صبح یونیورسٹی بھی جانا ہے۔" اتنا کہہ کے بھائی چلتا بنا۔ اور میں پھر سے دن میں پیش آنے والے حادثے اور ابھی ابھی کے فون حادثے کے متعلق سوچ میں پڑ گئی۔اتنے خوفناک حقائق دیکھنے اور سننے کے باوجود مجھے یقین نہیں آ رہا تھا ، حالانکہ میں نے سب کچھ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا تھا۔ مگر عمر بہت چھوٹی تھی اور میری تربیت میں سادگی تھی، مگر جذبات کے آگے کسی بھی انسان کا کوئی بس نہیں چلتا، چاہے وہ جتنا بھی مضبوط  اعصاب کا مالک ہو۔ میرے بڑے بھائی کیساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا، اور انجانے میں مَیں بھی جذبات کے دھارے میں بہنے لگی تھی، کیونکہ اب مجھے بھائی کی "ٹوہ" رہنے لگی تھی۔
یہ بات طے ہے کہ انسان اپنے جذبات کے آگے بے بس ہو جاتا ہے ، اور کم عمری میں تو یہ ایک ایسا زہرِ قاتل ہے کہ انسان کو اگر یہ لَت کم عمری میں لگ جائے تو وہ زندگی بھر کیلئے ایک ایسے گرداب میں پھنس جاتا ہے کہ موت کے وقت تک وہ اس گرداب سے نکل نہیں پاتا۔ میں نے اپنے بھائی کی ٹوہ میں وہ وہ کام کر ڈالے ، جن کے بارے میں ایک شریف ،  معصوم اورکم عمر لڑکی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ بھائی نے بھی گھر خالی دیکھ کے خوب فائدہ اُٹھایا اور وہ روز  "اپنی سٹڈی کے بہانے" اُس لڑکی کو بلانے لگا اور میں بھی روز ہی بالکنی میں دھوپ کے ساتھ ساتھ اپنے اندر کے جوار بھاٹے کے ہاتھوں جلتی ہوئی اگزاسٹ فین کی جگہ سے ہوس اور تڑپ کا یہ کھیل دیکھتی رہی اور اپنے آپ سے بے خبر اپنے وجود کو آگ کی اُس لپیٹ میں لے آئی کہ جس سے میں نے دنیا جہان کے عذاب خریدے۔ یہ سلسلہ یونہی مزید چھ دن تک چلتا رہا۔ آخرکار یہ سلسلہ بند ہو گیا اور ابا جی اپنی ڈیوٹی کی وجہ سے واپس آ گئے۔ بھائی اپنی مصروفیت میں لگ گیا اور میں جو امتحانات کی تیاری میں تھی، مجھے ایک نئی آگ سے روشناس ہونے سے زندگی کسی اور طرف لے گئی۔ شیطانیت کس چیز کا نام ہوگا۔ ایسا کچھ نہیں ہے، انسان جو دیکھتا ہے وہ ہر حال میں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح ایک کم عمر جب سیکس کی طرف اپنی عمر  اور شادی کے بنا سب کچھ دیکھ لیتا یا لیتی ہے تو اُسکا اپنے آپکو کنٹرول کرنا مشکل بلکہ ناممکن سا ہو جاتا ہے۔ اماں واپس نہیں آئیں اور ابا اور بھائی صبح کے نکل جاتے اور شام میں واپس لوٹتے ، میں کالج سے امتحانات کیوجہ سے فری ہو چکی تھی۔ بھائی کی ٹوہ میں لگے لگے مجھے وی سی آر کی بلیو فلمز مل گئیں۔ اور مزید میری تباہی کا رستہ کھل گیا۔ مجھ پہ سیکس کے نئے ادراک ہوئے۔ میں اپنی عمر سے زیادہ صحتمند اور حسین بھی تھی، اٹھتی ہوئی جوانی  اور ان سب باتوں نے مجھے مزید بھڑکا ڈالا۔ ان سب باتوں نے مجھے نئے سے نئے راستوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی اور پھر مجھے گھر کی چھت سے ہی راستہ مل گیا ۔ میں نے باہر بھی کئی ایک لڑکوں کو پھانسنے کی کوشش کی مگر گھر کی عزت کا ڈر اور شروعات کا نفسیاتی خوف آڑے آیا ۔
میں جلد سے جلد کچھ کر لینا چاہتی تھی کیونکہ اگر اماں آ جاتی  تو وہ تو رات کے چوکیدار کی طرح تھیں جو بے وقت ہی اٹھ کے ہر بچے اور گھر کو چیک کرنا شروع کر دیتی تھی ۔ میں نے کپڑے دھوئے اور چھت پہ لٹکاتے ہوئے مجھے اندھے پن میں دو  گھر چھوڑ کے ایک کبوتر باز نظر آیا جو کہ پہلے تو بہت سے اشارے مجھے کر چکا تھا اور میرا جواب تھا نفرت ۔۔۔ مگر آج میں اپنے اندھے پن سے اُ سکو اشارہ کر بیٹھی اور مَت جو ماری گئی تھی ۔ اور وہ کچھ دیر تو ہونق بنا ہی مجھے گھورتا رہا جیسے اُسے یقین ہی نہ آ رہا ہو ۔وہ دن کے 24 میں سے 18 گھنٹے اپنے کبوتروں کے کُھڈے میں ہی گزارنے والا انسان تھا ۔ آخر میں نے اُسے زور زور سے ہاتھ کے اشارے کر کرکے بڑی مشکل سے بلایا۔ تو وہ بندر کی طرح چھتیں پھلانگتا ہو ا مجھ تک بے ترتیب سانسوں سے پہنچ گیا ۔
او ربولا کہ بی بی خیر اے، ساڈے نصیب کتھوں اج ہرے ہوگئے نیں ۔۔۔
میں نے اُسے بازو سے پکڑا اور سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی اُسے نیچے لے آئی اور اُس سے خود ہی جذبات کی رو میں لپٹ گئی ، اتنا کرنا تھاکہ کسی بھی بات کو موقعہ نہ ملا اور ہم جذبات کی تغیانی میں بہہ نکلے مگر اُس لڑکے نے میرے جذبات کو سمجھے بنا ہی مجھے ادھورا چھوڑ دیا میں جو جذبات کی اتنے دن کی روک سے اور شدت سے بھوکی بلی بنی ہوئی تھی ، اُسے نوچ کھسوٹ ڈالا اور دھکے مار مار کے اُسے بھگا دیا۔ اب  میں نےانجانے میں  مزید اپنے اندر آگ جلا لی ۔ جذبات کی ان شدتوں کا تو کچھ پتہ ہی نہیں تھا مگر اُسکے ادھورا چھوڑنے سے میں زخمی ہو گئی ۔ دل و دماغ ساتھ چھوڑتے محسوس ہو رہے تھے ۔ وجود گرم بھٹی کی طرح جل رہا تھا، سمجھ سوچ کام نہیں کر رہی تھی ۔ میں اُٹھی ، واش روم گئی اور شاور کھول کے کھڑی ہو گئی اور رونے لگی ، روتے روتے ہچکی سی آئی اور وہیں گر کے چیختی روتی رہی ، اپنے کپڑوں سے خون صاف کیا ، خود کو صاف کیا ۔ شاور بے ہنگم خود ہی میرے وجو دپہ چلتا ، بہتا اور ٹھنڈا پانی بھی آگ کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔ دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز نے مجھے میری ہوش کی دنیا واپس کی اور خیال آیا کہ بھائی آیا ہے ۔ تو میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور جلدی سے کپڑے پہن کے باہر آئی ۔
 اتنے میں بھائی بھی باہر سے مجھے ڈھونڈتا ہو ا میرے کمرے میں آیااور بولا     "کچھ کھانے کو ملے گا ۔"
"نہیں بھائی ، میری طبیعت ٹھیک نہیں ، باہر سے ہی کچھ لے  آؤ ۔" میں بولی اور وہ اچھا کہتا ہوا چلتا بنا۔میں نہانے کے باوجود بھی نڈھال بستر پہ گر گئی  اور تنگ پڑ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی اور پھر زندگی بھر میں روتی ہی رہی ۔ کبھی اپنے اندر ، کبھی چھپ چھپ کے اور بے آواز ۔۔۔۔
 میری زندگی کا وہ روگ بن گیا کہ آخر کار میں ٹوٹے وجود کیساتھ جیتے جیتے اُس موڑ پہ پہنچ گئی جہاں میں نے اپنے ہی سگے بھائی کو قتل کر ڈالا اور جیل کے مزموم ماحول میں زندگی کا قیمتی وقت گزارنے پہ مجبور ہوئی ۔
وقت گزرتا رہا ، اور میں جذبات کے اندھے دھارے میں بہتی رہی۔ بہت سے مردوں سے شادی سے پہلے ہی تعلق بن گیا ، ایک کو پکڑا  دوسرے کو چھوڑا مگر وہ تشنگی اور ادھورے جذبات میری زندگی سے کسی طور نہ نکل سکے اور ان ادھورے جذبات نے میرے مزاج میں وحشیانہ پن اور ایک سخت گیری کا ردِ عمل بھر دیا۔
بی اے کیا تو ماں باپ نے شادی کر دی ۔ شوہر میرا بہت اچھا تھا مگر جس آگ میں جل رہی تھی ۔ وہ میرے بنا بتائےا ور بنا بولے ہی سمجھ چکا تھا ۔ مگر اُس کے ساتھ وفا نہ کر پائی ۔ میری شادی اپنے ماموں کے بیٹے سے ہوئی میں نے لڑ جھگڑ کر اُسکو اُسکے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے جدا کیا ۔ کاروباری آدمی تھا ، شادی کے بعد مزید اُسکے کاروبار نے ترقی کی اور مزید اوپر سے اوپر جانے لگا ۔ میرے مزاج کو سمجھ کر اُس نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح مجھے اپنی محبت سے ذہنی گرداب سے نکالے ۔ اُس نے شادی کی پہلی رات ہی سمجھ لیا تھا کہ میں کنواری نہیں ہوں ، مگر وہ ایک اعلیٰ مزاج انسان تھا اور اُس نے مجھے بھرپور محبت دی ۔ مگر اپنے ادھورے پن سے اُس کا ساتھ نہ دے پائی ۔ اچھا مضبوط اور ایک اعلیٰ معیاری  مرد بہت کم لڑکیوں کو ملا کرتے ہیں ۔ مگر میں ناکام رہی کہ مزید اُس کا ساتھ نبھا سکوں ۔ میں نے اُس سے طلاق کامطالبہ کر دیا ۔ اُ س نے ہر ممکن مجھے منایا، سمجھایا مگر میں اُس زمین کی طرح ہو چکی تھی جس میں پھول ، خوشبو اور سرسبز ہریالی اُگتے اُگتے اچانک کسی گندی نالی کا پانی ڈال کے غلیظ کڑوی اور غلط چیزوں یا منشیات کاشت کی جائے ۔
 اُس نے آخر مجبور ہو کر مجھے میرے کہنے کے مطابق طلاق دی ا ور ساتھ اک بار پھر اعلیٰ ظرفی دکھا گیا کہ ایک مکان اور بیس لاکھ روپیہ مجھے بطور حق مہر دے گیا ۔ جبکہ میرا شادی کے وقت  حق مہر بیس ہزار اور دو تولے سونا تھا مگر وہ جان گیا تھا کہ طلاق کے بعد میں اپنے گھر والوں یعنی میکہ کی طرف واپس نہیں لوٹوں گی ۔
اُس نے کہا ، " میں تم سے شدید محبت کرتا ہوں ، اس لئے تمہارے کہنے اور مطالبے کی مجبوری سے علیحدگی اختیار کی ہے مگر یہ مکان اور بیس لاکھ روپے میری طرف سے تحفہ ہیں ۔تم جب سے میری زندگی میں آئی ہو،  میں نے بہت سے ترقی کے ادوار دیکھے ہیں ۔"
خیر ۔۔۔
 میں طلاق لے کر اپنے میکہ والوں سے ملی تو ضرور مگر میں نے اپنی تنہائی اپنے سابقہ شوہر کے دیئے ہوئے تحفہ نما  گھر میں ہی گزاری اور پھر اپنی تشنگی سے مجبور ہو کر مزید بھی کئی مردوں سے تعلقات بنائے مگر اپنی پیاس اور تشنگی کو نہ مٹا سکی ۔ میں اس ضمن میں بہت خود سر اور بدبختی کی انتہاؤں کو چھو چکی تھی ۔ مگر میرے لئے واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا ۔ عور ت کو عزت تو سب دیتے ہیں مگر جب عورت زخمی ہو جائے تو اُسے ذلت بھی ہمارا ہندوازم کا معاشرہ خوب دیتا ہے ۔ آج جو آپ اس معاشرہ میں عورت کی تذلیل اور سُبکی کے واقعات دیکھتے ہیں اور عورت کو مختلف مردوں کیساتھ تعلق بناتا دیکھتے ہیں تو وہ عورت کی مجبوری بن جاتی ہے ۔ اور ایسی کوئی بھی عورت اپنے لڑکپن میں ہی اس تباہی کی طرف آتی ہے ۔ اگر لڑکپن سے بائیس ، پچیس سال یا شادی کی عمر تک بچ جائے تو پھر سمجھ لیں کہ عورت عزت ، سمجھ ، ہوش اور اعلیٰ قدروں کیساتھ زندگی گزار جائے گی ۔اور اگر کوئی لڑکی اس سے پہلے ٹوٹ گئی تو پھر اُسے موت کے علاوہ سنبھالنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں رہتی ۔ میں مردوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینکتی رہی ۔ دو مرد مجھے ایسے بھی ملے جو میری اذیت کے آگے پہاڑ بھی بنے ۔ میں نے اپنے آپ کی خوبصورتی ، لوچ اور سیکس اپیل کا ہر حربہ آزما کے دیکھا مگر وہ دونوں ہی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے ۔اور میں ان کو حاصل کرنے اور ذلیل کرنے میں ناکام رہی ۔
میں نے اپنے گھر والوں سے ملنا کافی عرصے سے چھوڑ دیا تھا۔ شادی کے بعد بھی کم ہی میکہ گئی اور طلاق کے بعد بھی بس ایک ہی دفعہ اپنی بوڑھی ماں کو دیکھنے گئی۔ ماں نے بہت کہا کہ میں ان کے پاس آ کے رہوں مگر میں نے انکار کر دیا کیونکہ ماں کے گھر رہنے کا مطلب تھا کہ بھائی کی مجھے شکل دیکھنی پڑتی اور اذیت کا پہلادور اور  وقت دوبارہ یاد آتے ۔ اور ماں کو اپنے پاس اس لئے نہیں لا سکتی تھی کہ پھر بھائی اور اسکے بچے آتے جاتے، اور یہ اب مجھے گوارہ نہیں تھا۔ اباجی وفات پا چکے تھے ۔ مگر ماں میری طلاق سے دکھی تھی ، مگر میری اذیت نے کسی کی بھی پروا کرنی چھوڑ دی تھی۔ میرا کام بس بینک سے پیسے لانا اور کھانا پینا اور اپنے لئے آدم خور چڑیل کی طرح شکار ڈھونڈنا اور جب کبھی شکار نہ ملنا تو اکیلی پڑی وی سی آر پہ فحش فلمیں دیکھنا یا پھر شراب پی کے لمبی نیند سو جانا۔ شراب میرے شکار مجھے لا کے دیا کرتے تھے ، شراب سے مجھے ایک نئی زندگی مل جاتی تھی اور میں اپنے شکار کی بوٹیاں اُدھیڑ دیتی تھی ۔ میرا یہ ایک انتقام تھا مردوں سے ۔ میں انہیں اتنا نڈھال کر دیتی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ تین سے چار ماہ تک میرا ساتھ دے پاتے تھے ۔ اور یہ سلسلہ کوئی بارہ تیرا سال تک چلتا رہا۔ پھر مجھے اپنی طاقت میں کمی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی اور میرا  لُٹا پُٹا  بدن اب مجھے کبھی کبھار بتاتا تھا کہ اب وہ پہلے والی طاقت نہیں رہی ۔ اور خوبصورتی بھی اب ڈھلنا شروع ہو گئی کیونکہ شراب بھی اپنا کام دکھا رہی تھی  ۔ عمر کے 34 سال بیت گئے تھے ۔ اور اندر کی ادھوری عورت ابھی تک اپنی تکمیل نہیں پا سکی تھی ۔ اب جسمانی اعضاء جواب دینے لگے تھے ۔ اب محرومی کی سوچیں بہت بڑھ گئی تھیں۔ اب کسی اپنے کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی ۔ رونے کی مجھے عادت نہیں تھی ۔ میں نے لڑکیوں بالیوں کی طرح کبھی رو کے اپنے دل کی بھڑاس نہیں نکالی تھی ۔ جسکی وجہ سے میرا اندر ہر وقت منجمد رہتا تھا۔ میں اپنے آپ میں ایک وحشیہ بن چکی تھی ۔ شادی کے بعد بھی اولاد نہیں ہوئی ، ہو سکتا تھا کہ اولاد ہو جاتی تو شاید میری تنہائی کم ہو جاتی ، یا اولاد کیساتھ مجھے صبر آ جاتا ۔ مگر نہیں ، عورت کی اولاد بھی ہو جائے تو تب بھی اس معاملہ میں صبر نہیں آیا کرتا۔ ہمارے پاکیزہ دینِ اسلام نے جو ہمیں زریں اصول دیئے ہیں وہی انسان کی اصل اور بہترین زندگی کی ضمانت ہیں اور یہ سلسلہ اسلام کی پیروی کرنے والوں کیلئے قیامت تک چلتا رہے گا ۔
طلاق کے بعد میرا بھائی دو دفعہ ماں کو لے کے آئے اور اپنے بڑے پن کا احساس دلانے کی کوشش کی مگر میں نے ٹکا سا جواب دے دیا کہ " میں شادی کے بعد کی زندگی گزار رہی ہوں ، شادی سے پہلے تک لڑکی کے ماں باپ اور بہن بھائی ضروری ہوتے ہیں ، بعد میں یہ رشتے ثانوی بن جاتے ہیں ۔ اس لئے آپ لوگ مجھے میرے حال پہ چھوڑ دیں اورمجھے میری زندگی گزارنے دیں۔"
ماں اور بھائی نے دوسری شادی کا بھی مجھے کئی دفعہ کہا مگر میں نے ٹال دیا ۔ میرا ایک شکار ایک چنچل شوخ اور لا ابالی سا لڑکا بنا۔ وہ اکثر راتوں کو باہر رہنے والا آوارہ مزاج تھا ۔ کبھی کبھار میرے پاس بھی رات رہ جایا کرتا تھا۔ ایک دن اُ س نے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ "میرے چچا نے میری ماں کو گالی دی تو میں نے ٹھان لی کہ چچا کے ساتھ اگر لڑوں گا تو یہ میرا باپ اور چچا دونوں مجھے مار پیٹ کے چپ کروا دیں گے ۔ اس لئے میں نے دل میں ٹھان لی کہ چچا کو زندہ نہیں چھوڑنا  اور ایک دن مجھے موقعہ مل گیا ۔
چچا رات کے اندھیرے میں کام سے پیدل واپس موٹر سائیکل گھسیٹتا ہوا آ رہا تھاشاید موٹر سائیکل پنکچر تھا کہ اندھیرے میں مجھے تاک لگانے کا موقعہ مل گیا ۔ میں نے چچاکی موٹر سائیکل کو دھکا مارا اور نیچے گراتے ہی چچا کی گردن تیز دھارخنجر سے کاٹ ڈالی ، وہ بیچارا چیخ بھی نہ سکا اور میں صاف بچ نکلا۔ " اور وہ پھر دوبارہ دانت نکوستےہوئے  ہنسا ، "ابھی بھی چچا کی برسیوں میں شدو مد کیساتھ جاتا ہوں اور بہت دکھی ہو کے چچاکی بیٹی سے افئیر چلا رہا ہوں ۔ اب چچا کی بیٹی سے شادی کرونگا ۔ " مجھے اُس کی کہانی سے تحریک ہوئی اور میں نے پوچھا کہ کیا وہ مجھے کوئی پستول لا کے دے سکتا ہے ؟ تو اُس نے مجھے لیڈیزپستول کی آفر دی کہ میں تم کو لائسنس والا بنوا کے دےسکتا ہوں ۔ " مگر میں شروع میں اس پہ راضی نہ ہوئی۔ وہ مجھے ایک اسلحہ کی دکان پہ لے گیا اور وہاں اس نے بہت سے پستول مجھے دکھائے اور مجھے ہلکا اور چھوٹا سا لیڈیز پسٹل بہت پسند آیا اور میں نے اُسکی کہانی سے ہی تحریک پکڑتے ہوئے ہی اپنے بھائی اور اپنے مجرم کو مارنے کی ٹھان لی تھی کیونکہ میرابھائی اگر ایسا کام نہ کرتا تو آج میں بھی خوش وخرم اپنی زندگی میں اپنی اولاد کیساتھ مگن اور خوشحال زندگی گزار رہی ہوتی ۔ میں نےپستول خریدا اور اپنے ارادے کی تکمیل کیلئے پلاننگ کرنے لگی ، میں چاہتی تھی کہ اپنے بھائی کو اس کے تمام جرم کی تفصیل سنا کے ماروں اور پھر میں نے ایک شام اسے چائے پہ بلایا اور اسے نیند کی گولیا ں دے کے چائے پلا دی ۔ پھر ریشمی باریک ڈوری سے اچھی طرح کس کے باندھ ڈالا ۔ اور گھسیٹ کے اپنے باتھ روم تک لے آئی تاکہ اس کی آواز بھی نہ آئے اور پانی سے اسے جگاؤں بھی اور پھر باتھ روم میں ہی قتل کر دوں ۔میں نے اپنی پلاننگ کے مطابق اسے ہاتھ پاؤں سے باندھ کے مضبوط ٹیپ اس کے منہ پہ چپکا دی ۔ میرا وجود نفرت کی آگ سے شعلہ بنا ہوا تھا ۔ میں نے پہلے تو بہت دفعہ سوچ کے اسے چھوڑ دیا تھا مگر اس کی عیاشیوں کی کئی داستانیں اپنی بھرجائی یعنی بھائی کی بیوی سے سن چکی تھی ۔میرے بھائی کے زنا کیوجہ سے آج میں بھی ٹوٹی بکھری پڑی تھی ۔
باتھ روم میں میں نے اسے خوب ٹھنڈے پانی سے نہلایا اور پھر جب وہ صحیح طرح اپنے ہوش میں آ گیا تو میں نے پلاسٹک کے پانی والے پائپ سے ہی اس کی دھلائی شروع کردی ۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں نے اسے کتنا مارا اور کتنے زخم دیئے اور کہاں اسے چوٹ لگی  اور جب وہ بے ہوش ہو کر پھر ایک طرف ڈھلک گیا تو میں نے پھر پانی ڈال ڈال کے اسے ہوش دلایا اور پھر خود بھی جو میں اسے مار مار کے تھک چکی تھی ۔
 باتھ روم کے دروازے پہ ہی کرسی رکھ کے بیٹھ گئی ۔ اُس وقت ہم صرف دو بہن بھائی ہی تھے یعنی میں اور میرا مجرم بھائی ۔ آخر کار میں نے اس کے ہونٹوں سے ٹیپ ہٹائی اور پانی پلا یا ۔۔۔۔
اور اسے اس کے جرم کی کہانی سنائی جس کو وہ سن کر ہکا بکا رہ گیا ۔ وہ کچھ بھی بولنے کے قابل نہ رہا تھا ۔ اس وقت میری عمر 34 سال اور بھائی کی عمر 40 سال تھی ۔اور میں نے اسے اسکا جرم سناکے اپناپستول سے  دو دفعہ فائر کر دیا ۔پستول دیکھنے کے باوجود  وہ اتنا زیادہ اپنا جرم سن کر اور میری بربادی کا سن کر پشیمان اور چپ ہو گیا کہ اس نے مجھ سے رحم کی التجا ء یا اپیل بھی نہیں کی ۔ بس اک ٹک مجھے گھورتا ہوا خاموشی سے مر گیا اور میں آج 42 سال کی عمر میں 8 سال کی سزا کاٹ کے واپس آئی ہوں ۔
اب پھر میں اکیلی۔
 بھائی مار ڈالا۔
اس کے بچے یتیم ہو گئے۔
 اور سب کی مزید نفرتیں سمیٹی ہیں ۔
بس گزر اوقات کے پیسے بینک سے ہر ماہ منافع یا سود کی شکل میں مل جاتے ہیں ۔ روٹی کھا لی اور بس اپنے سانس گزار رہی ہوں ۔ جیل میں سزا کے دوران دمہ کا مرض ہو گیا ہے ، جس سے پھیپھڑے اب جواب دیتے جا رہے ہیں ۔ رہائی کے بعد کچھ علاج تو کروایا ہے مگر کوشش یہی ہے کہ اب زندگی ختم ہو جائے  تو بہتر ہے  کیونکہ مزید اب سسک کے تنہائی میں گزارا نہیں ہوتا ۔
 دمہ کے اب آسان علاج ہیں مگر میں بس وقتی دوا کھا کے گزارا کر رہی ہوں ۔ چاہتی ہوں کہ کسی وقت ہچکی آئے یا کسی وقت دمہ کا ہی شدید اٹیک ہو جائے اور کھانستے کھانستے سانس واپس نہ آئے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ وصیت میں اُسی بھائی کے بچوں کے نام مکان اور بینک بیلنس بھی لکھوا چھوڑا ہے ۔ جب مروں گی تو خود ہی ان کو مل جائے گا۔
ہاں ۔۔۔۔
 سزا کاٹنے کے دوران اور سزا کاٹنے کے بعد کبھی کبھی پچھتاوا بھی ہوتا  رہا ہے کہ اتنا عرصہ گزار آئی تھی تو بھائی کو نہ ہی قتل کرتی ۔
 مگر انسان بے بس ہے ۔
 جو کر بیٹھتا ہے وہی اسے بھگتنا بھی پڑتا ہے ۔
جب ایسا انسان ٹوٹتا ہے تو پھر اپنے ساتھ ساتھ اوروں کو بھی بے حس بن کر برباد کر جاتا ہے۔
 کسی کی بہترین قسمت ہوتی  ہے کہ قدرت مہربان ہو  اوروہ  انسان پشیمان نہ ہو ۔
ورنہ عموماََ جب انسان اکیلا ہو جاتا ہے تو گناہ  اور پچھتاوے کا احساس بڑھ جاتا ہے ۔٭٭٭٭ مزید پڑھیئے : سوشل میڈیا٭٭٭٭ ہدایت یافتہ

No comments:

Post a Comment