اسلام
دینِ فطرت اور انسانیت کا مذہب ہے۔ اسکی تمام تعلیمات انسانی فطرت کے عین مطابق
ہیں۔ خدائے رحمٰن کا مخاطب انسان ہے، اُس نے انسان کو اشرف المخلوقات کا تاجِ زریں
پہنا کر کائنات کی جملہ مخلوق پر فضیلت بخشی اور عزت و تکریم کی سند عطا کی، عالمِ
انسانیت کے تمام انسان مساوی مرتبے کے حامل ہیں، رنگ ونسل اور قوم و قبیلے کے تمام
امتیازات بے معنی ہیں۔
ارشادِ
ربانی ہے:
ترجمہ:
"لوگو!
ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اورپھر تمہاری قومیں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو"۔ (سورۃ
الحجرات، آیت:١٣)
قوموں اور برادریوں میں انسان تمدن و معاشرت کی اہم اکائی "ماں" ہے۔ اسلام نے خاندانی نظام میں سب سے زیادہ عظمت و احترام اور فضیلت و اہمیت "ماں" کو عطا کی ہے، قرآن کریم اور محسنِ انسانیت آقا کریم ﷺ کے فرامین میں جا بجا اس ابدی اور ناقابلِ تردید حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔
دینِ فطرت نے "ماں" کا مرتبہ سب سے بلند اور سب سے عظیم مقرر کیا ہے ۔ اس کے قدموں کو سعادت و کامرانی کا گنجینہ اور اس کے لبوں سے نکلی ہوئی دعاؤں کو فلاح و کامیابی کا خزینہ قرار دیا ہے۔ پیغمبرِ رحمت حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہےکہ " جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے"۔ (مسند احمد، نسائی(
"ماں" خلوص و ایثار اور بے لوثی و بے غرضی کی علامت ہے۔ اولاد کیلئے سکی محبت و شفقت اور تربیت ورحمت، عکس ہے رب العالمین کی اپنی مخلوق سے محبت اور رحمت کی۔ اسلام نے ماں اور باپ دونوں کیساتھ حُسنِ سلوک کی تاکید کی اور اُنکی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ تاہم قرآن و حدیث میں "ماں " کے احسانات کو نمایاں کرتے ہوئے اُسے عظمت کا مقام عطا کیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا،"میں آدمی کو اُسکی ماں کے بارے میں تاکید کرتا ہوں، میں آدمی کو اُسکی ماں کے بارےمیں تاکید کرتا ہوں، چوتھی مرتبہ فرمایا، میں آدمی کو اُسکے باپ کے بارے میں حُسنِ سلوک کی تاکید کرتا ہوں۔" (سنن ابنِ ماجہ)
خود پیکرخلقِ عظیم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ آپؐ اپنی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ کی تشریف آوری کے موقع پر اُنکےاحترام میں کھڑے ہو جاتے اور اُن کیلئے اپنی چادر بچھا دیتے۔ آیات مبارکہ اور احادیث نبویؐ میں بوڑھے والدین سے حُسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے، یہ ہی اسلامی تہذیب و ثقافت اور مُسلم خاندان کے نظام کی اساس ہے۔اسلام میں چودہ سو سال قبل بھی والدین کو عظمت و اہمیت اور عزت و احترام کا درجہ دیا گیا تھا ۔ آج بھی والدین کو جو عظمت و اہمیت اور عزت و احترام حاصل ہے، دنیا کے مختلف معاشروں ، تہذیبوں اور مذاہب میں اسکی مثال نہیں ملتی۔
مغرب کا خاندانی نظام اور گھریلو زندگی بدترین انتشار کا شکار ہے۔ وہاں بوڑھے والدین کی عظمت کا تصور مفقود ہو چکا ہے۔ گھریلو زندگی کی تباہی اور خاندانی نظام کے انتشار کی بناء پر اگرچہ خواتین اور بچے شدید متاثر ہوئے، تاہم بوڑھے بالخصوص بوڑھی خواتین کی حالت ناگفتہ بہ ہے، بڑھاپے میں کوئی اُنکا پرسانِ حال نہیں۔ وہ اولڈ ایج ہومز میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔کبھی کبھار یا سال میں کرسمس کے تہوار کے موقع پر ہی اکثر والدین کو اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کی شکل دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ "اولڈہومز" یا بوڑھوں کی آرام گاہیں، دراصل اذیت کدے ہیں، جہاں یہ شدید کرب اور ذہنی صدموں کی حالت میں موت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
اکثر اولاد تو بوڑھے والدین کو "اولڈ ہاؤسز"میں پہنچا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتی ہے اور اگر وہ کسی مرض میں مبتلا نہ ہوں تو بھ تنہائی اُنہیں ضرور ذہنی مریض بنا دیتی ہے۔ ماں باپ اپنی اولاد کو ملنے کو ترستے رہتے ہیں، مگر اولاد کے پاس ماں باپ سے ملنے کیلئے کوئی وقت ہی نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ یورپ میں "فادرز ڈے" اور "مدرزڈے" کی ناخلف روایات نے جنم لیا۔وہ اپنے ماں باپ اور اسی طرح دوسرے رشتے داروں کیلئے ایک دن مخصوص کر دیتے ہیں تاکہ اُنکو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے۔
کہا جاتاہے کہ خاندانی نظام کی تباہی، گھریلو رندگی کی بربادی اور اولڈہومز کی آبادکاری کے بعد مغربی معاشرے میں "ماں" کی عظمت کا تصور اُجاگر ہوا لیکن اسکی تکمیل کیلئے محض اسے کافی سمجھا گیا کہ سال میں ایک دن "ماں" کیلئے مخصوص کرلیا جائے۔ چنانچہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں ١٩١٤ء سے ہر سالم مئی کے ہر دوسرے اتوار کو " یومِ والدہ یعنی مدرز ڈے" منایا جاتا ہے۔ اس دن بچے ماں کو کارڈز ، پھول اور تحائف دیتے ہیں، اس طرح گویا "ماں" کی بے لوث محبتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ لیکن اکثر کو ملنےکا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ گھر بیٹھ کر ہی صرف "یاد" کرلیتےہیں۔
یہ ہے مغربی معاشرے میں والدین کی عزت اور احترام!
پاکستان میں بھی "اولڈ ہومز" اور "اولڈ ہاؤسز" بننے شروع ہو گئے ہیں ، اور کچھ لوگ وہاں فیشن کے طور پہ اپنے والدین کو جمع کروا رہے ہیں، محض "نئی ترقی" اور "مغرب" کی اندھی تقلید کے پیشِ نظر اب یہ حالات پاکستان میں بھی پیدا ہو رہے یا کئے جا رہے ہیں۔ اب والدین "اولڈ ہاؤسز" میں یہاں بھی جمع کروائے جا رہے ہیں۔ یہ ترقی اور ٹائم نہ ہونے کے بہانے ہیں، والدین بھی اُسی اولاد کے درمیان ہی بیٹھے ہوتے ہیں جہاں ہماری نام نہاد بیویوں کیلئے سہولتوں کے انبار موجود ہوتے ہیں ۔ ایک باپ ٩ بچوں کو تو پال سکتا ہے، مگر ٩ بچے مل کر بھی ایک باپ یا ماں باپ کو نہیں پال سکتے۔مغرب کی دیگر روایات کی نقالی کی روایت کی طرح ہمارے یہاں بھی لوگ اب "مدرز ڈے" کو اہمیت دینےلگے ہیں۔ لیکن الحمد للہ ماں کی عظمت ، اُسکی عزت و احترام ہمارے یہاں آج بھی قائم ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گا۔
"ماں" اللہ تعالیٰ کیطرف سے دیا جانے والا سب سے قیمتی اور حسین تحفہ ہے۔ خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو ماں کی محبت اور شفقت نصیب ہوتی ہے۔ ہر بچہ اپنی زندگی کا پہلا سبق ماں کی گود سے ہی حاصل کرتا ہے۔ وہ تکلیف کے وقت اپنی ماں کی طرف ہی دیکھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ماں اسکے ہر مسئلہ کو حل کر دے گی۔ مشکل لمحات میں مامتا بھرے ایک لمس سے دل جینے کی قوت حاصل کر لیتا ہے۔
یہاں نپولین بونا پاٹ کی مثال دی جاسکتی ہے، نپولین ایک چھوٹے قد اور بھدے جسم کا آدمی تھا۔ اسکول کے زمانے میں اُسکے ہم جماعت اُسکے قد اور جسم کی مناسبت سے اُسے "بچہ ہاتھی" کہا کرتے تھے۔ ہم جماعتوں کے اس مذاق نے نپولین میں احساسِ کمتری پیدا کر دی۔ جب اس بات کا ذکر اپنی ماں سے کیا تو انہوں نے کہا، "تم اپنے قد کی کمی کو اپنے کردار کی بلندی سے شکست دو، اور اپنے کردار کو اس قدر بلند کرو کہ مذاق اڑانے والے تمہارے بلند کردار کے سامنے جُھک جائیں۔"
اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے نپولین کیا بنا، یہ آج ہم سب پر عیاں ہے۔صرف نپولین ہی نہیں تاریخ ایسے بے شمار لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی ماں کے حکم کے آگے سر جھکایا تو وہ کیا سے کیا بن گئے۔
ماں بلاشبہ وہ عظیم ہستی ہے جسکا نعم البدل ناممکن ہے۔ ماں اولاد کیلئے جتنی قربانیاں دیتی ہے اولاد اگر چاہے بھی تو ساری زندگی خدمت کرکے اُسکا قرض نہیں چکا سکتی۔ ماں ایک لفظ نہیں بلکہ محبتوں کا مجموعہ ہے۔ اللہ اور آقا کریم ﷺ کے بعد سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی ماں کی ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جہاں ہم سالگرہ یا دیگر تقریبات مناتے ہیں، وہاں ایک دن اگر ایسی ہستی کے نام کردیا جائے جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بلاشبہ حرج تو کوئی نہیں لیکن عزیز ترین ہستی کیلئے صرف ایک ہی دن کیوں مخصوص کیا جائے......؟؟؟
کیوں نہ ہر دن "والدین" کا دن ہو ، کیونکہ والدین کا کوئی بھی بدل نہیں ہو سکتا۔
قوموں اور برادریوں میں انسان تمدن و معاشرت کی اہم اکائی "ماں" ہے۔ اسلام نے خاندانی نظام میں سب سے زیادہ عظمت و احترام اور فضیلت و اہمیت "ماں" کو عطا کی ہے، قرآن کریم اور محسنِ انسانیت آقا کریم ﷺ کے فرامین میں جا بجا اس ابدی اور ناقابلِ تردید حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔
دینِ فطرت نے "ماں" کا مرتبہ سب سے بلند اور سب سے عظیم مقرر کیا ہے ۔ اس کے قدموں کو سعادت و کامرانی کا گنجینہ اور اس کے لبوں سے نکلی ہوئی دعاؤں کو فلاح و کامیابی کا خزینہ قرار دیا ہے۔ پیغمبرِ رحمت حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہےکہ " جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے"۔ (مسند احمد، نسائی(
"ماں" خلوص و ایثار اور بے لوثی و بے غرضی کی علامت ہے۔ اولاد کیلئے سکی محبت و شفقت اور تربیت ورحمت، عکس ہے رب العالمین کی اپنی مخلوق سے محبت اور رحمت کی۔ اسلام نے ماں اور باپ دونوں کیساتھ حُسنِ سلوک کی تاکید کی اور اُنکی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ تاہم قرآن و حدیث میں "ماں " کے احسانات کو نمایاں کرتے ہوئے اُسے عظمت کا مقام عطا کیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا،"میں آدمی کو اُسکی ماں کے بارے میں تاکید کرتا ہوں، میں آدمی کو اُسکی ماں کے بارےمیں تاکید کرتا ہوں، چوتھی مرتبہ فرمایا، میں آدمی کو اُسکے باپ کے بارے میں حُسنِ سلوک کی تاکید کرتا ہوں۔" (سنن ابنِ ماجہ)
خود پیکرخلقِ عظیم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ آپؐ اپنی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ کی تشریف آوری کے موقع پر اُنکےاحترام میں کھڑے ہو جاتے اور اُن کیلئے اپنی چادر بچھا دیتے۔ آیات مبارکہ اور احادیث نبویؐ میں بوڑھے والدین سے حُسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے، یہ ہی اسلامی تہذیب و ثقافت اور مُسلم خاندان کے نظام کی اساس ہے۔اسلام میں چودہ سو سال قبل بھی والدین کو عظمت و اہمیت اور عزت و احترام کا درجہ دیا گیا تھا ۔ آج بھی والدین کو جو عظمت و اہمیت اور عزت و احترام حاصل ہے، دنیا کے مختلف معاشروں ، تہذیبوں اور مذاہب میں اسکی مثال نہیں ملتی۔
مغرب کا خاندانی نظام اور گھریلو زندگی بدترین انتشار کا شکار ہے۔ وہاں بوڑھے والدین کی عظمت کا تصور مفقود ہو چکا ہے۔ گھریلو زندگی کی تباہی اور خاندانی نظام کے انتشار کی بناء پر اگرچہ خواتین اور بچے شدید متاثر ہوئے، تاہم بوڑھے بالخصوص بوڑھی خواتین کی حالت ناگفتہ بہ ہے، بڑھاپے میں کوئی اُنکا پرسانِ حال نہیں۔ وہ اولڈ ایج ہومز میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔کبھی کبھار یا سال میں کرسمس کے تہوار کے موقع پر ہی اکثر والدین کو اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کی شکل دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ "اولڈہومز" یا بوڑھوں کی آرام گاہیں، دراصل اذیت کدے ہیں، جہاں یہ شدید کرب اور ذہنی صدموں کی حالت میں موت کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
اکثر اولاد تو بوڑھے والدین کو "اولڈ ہاؤسز"میں پہنچا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتی ہے اور اگر وہ کسی مرض میں مبتلا نہ ہوں تو بھ تنہائی اُنہیں ضرور ذہنی مریض بنا دیتی ہے۔ ماں باپ اپنی اولاد کو ملنے کو ترستے رہتے ہیں، مگر اولاد کے پاس ماں باپ سے ملنے کیلئے کوئی وقت ہی نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ یورپ میں "فادرز ڈے" اور "مدرزڈے" کی ناخلف روایات نے جنم لیا۔وہ اپنے ماں باپ اور اسی طرح دوسرے رشتے داروں کیلئے ایک دن مخصوص کر دیتے ہیں تاکہ اُنکو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے۔
کہا جاتاہے کہ خاندانی نظام کی تباہی، گھریلو رندگی کی بربادی اور اولڈہومز کی آبادکاری کے بعد مغربی معاشرے میں "ماں" کی عظمت کا تصور اُجاگر ہوا لیکن اسکی تکمیل کیلئے محض اسے کافی سمجھا گیا کہ سال میں ایک دن "ماں" کیلئے مخصوص کرلیا جائے۔ چنانچہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں ١٩١٤ء سے ہر سالم مئی کے ہر دوسرے اتوار کو " یومِ والدہ یعنی مدرز ڈے" منایا جاتا ہے۔ اس دن بچے ماں کو کارڈز ، پھول اور تحائف دیتے ہیں، اس طرح گویا "ماں" کی بے لوث محبتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ لیکن اکثر کو ملنےکا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ گھر بیٹھ کر ہی صرف "یاد" کرلیتےہیں۔
یہ ہے مغربی معاشرے میں والدین کی عزت اور احترام!
پاکستان میں بھی "اولڈ ہومز" اور "اولڈ ہاؤسز" بننے شروع ہو گئے ہیں ، اور کچھ لوگ وہاں فیشن کے طور پہ اپنے والدین کو جمع کروا رہے ہیں، محض "نئی ترقی" اور "مغرب" کی اندھی تقلید کے پیشِ نظر اب یہ حالات پاکستان میں بھی پیدا ہو رہے یا کئے جا رہے ہیں۔ اب والدین "اولڈ ہاؤسز" میں یہاں بھی جمع کروائے جا رہے ہیں۔ یہ ترقی اور ٹائم نہ ہونے کے بہانے ہیں، والدین بھی اُسی اولاد کے درمیان ہی بیٹھے ہوتے ہیں جہاں ہماری نام نہاد بیویوں کیلئے سہولتوں کے انبار موجود ہوتے ہیں ۔ ایک باپ ٩ بچوں کو تو پال سکتا ہے، مگر ٩ بچے مل کر بھی ایک باپ یا ماں باپ کو نہیں پال سکتے۔مغرب کی دیگر روایات کی نقالی کی روایت کی طرح ہمارے یہاں بھی لوگ اب "مدرز ڈے" کو اہمیت دینےلگے ہیں۔ لیکن الحمد للہ ماں کی عظمت ، اُسکی عزت و احترام ہمارے یہاں آج بھی قائم ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گا۔
"ماں" اللہ تعالیٰ کیطرف سے دیا جانے والا سب سے قیمتی اور حسین تحفہ ہے۔ خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو ماں کی محبت اور شفقت نصیب ہوتی ہے۔ ہر بچہ اپنی زندگی کا پہلا سبق ماں کی گود سے ہی حاصل کرتا ہے۔ وہ تکلیف کے وقت اپنی ماں کی طرف ہی دیکھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ماں اسکے ہر مسئلہ کو حل کر دے گی۔ مشکل لمحات میں مامتا بھرے ایک لمس سے دل جینے کی قوت حاصل کر لیتا ہے۔
یہاں نپولین بونا پاٹ کی مثال دی جاسکتی ہے، نپولین ایک چھوٹے قد اور بھدے جسم کا آدمی تھا۔ اسکول کے زمانے میں اُسکے ہم جماعت اُسکے قد اور جسم کی مناسبت سے اُسے "بچہ ہاتھی" کہا کرتے تھے۔ ہم جماعتوں کے اس مذاق نے نپولین میں احساسِ کمتری پیدا کر دی۔ جب اس بات کا ذکر اپنی ماں سے کیا تو انہوں نے کہا، "تم اپنے قد کی کمی کو اپنے کردار کی بلندی سے شکست دو، اور اپنے کردار کو اس قدر بلند کرو کہ مذاق اڑانے والے تمہارے بلند کردار کے سامنے جُھک جائیں۔"
اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے نپولین کیا بنا، یہ آج ہم سب پر عیاں ہے۔صرف نپولین ہی نہیں تاریخ ایسے بے شمار لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی ماں کے حکم کے آگے سر جھکایا تو وہ کیا سے کیا بن گئے۔
ماں بلاشبہ وہ عظیم ہستی ہے جسکا نعم البدل ناممکن ہے۔ ماں اولاد کیلئے جتنی قربانیاں دیتی ہے اولاد اگر چاہے بھی تو ساری زندگی خدمت کرکے اُسکا قرض نہیں چکا سکتی۔ ماں ایک لفظ نہیں بلکہ محبتوں کا مجموعہ ہے۔ اللہ اور آقا کریم ﷺ کے بعد سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی ماں کی ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جہاں ہم سالگرہ یا دیگر تقریبات مناتے ہیں، وہاں ایک دن اگر ایسی ہستی کے نام کردیا جائے جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بلاشبہ حرج تو کوئی نہیں لیکن عزیز ترین ہستی کیلئے صرف ایک ہی دن کیوں مخصوص کیا جائے......؟؟؟
کیوں نہ ہر دن "والدین" کا دن ہو ، کیونکہ والدین کا کوئی بھی بدل نہیں ہو سکتا۔
No comments:
Post a Comment