ترجمہ: "جو لوگ مومن (یعنی مُسلمان ہیں) اور جو یہودی اور عیسائی اور مجوسی اور مُشرک۔ اللہ اُن (سب) میں قیامت کے دن فیصلہ کرے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز سے باخبر ہے"۔ (سورۃ الحج۔ آیت 17)
اس آیت مذکورہ سے ہمیں یہ بات صاف حقیقت سے واضح نظر آ رہی ہے کہ مسلمان اس
خیال میں نہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں یا مسلمان کہلاتے ہیں اس لئے ہمارے ساتھ روزِ
حساب یعنی قیامت کے دن جاو بے جا ہر قسم کی رعایت دی جائے گی۔ اس آیت کریم کو پڑھ
کر ہم مسلمانوں کی حقیقت کی آنکھیں کُھل جانی چاہییں کہ مسلم یا غیر مسلم ، سبھی
کیلئے اللہ رب العزت کا قانونِ انصاف سب کیلئے یکساں ہے اور یکساں ہی رہے گا۔ یہاں
دنیامیں بھی اور آخرت میں بھی۔
مسلمان اگر دنیائے اسلام پر نظر ڈالیں اور اسلامی ملکوں کے مسلمانوں کی حالتِ
زار دیکھیں اور اس میزانِ قرآن میں اپنے اعمال اور عقیدہ کو تول کر اپنی زندگی میں
ہی فیصلہ کر سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ وہ مسلمان کہلانے کے باوجود خستہ حال
کیوں ہیں اور دوسری قومیں باوجود بے دین ہونے کے خوشحال اور غالب کیوں ہیں۔۔۔؟
میزان ِ حق میں نام اور نسل رنگ اور وطن کی قیمت نہیں ہے بلکہ ایمانِ کامل اور
عملِ صادق کی وہاں قدرو منزلت ہے۔ اگر دیکھنا ہے تو یہ دیکھو کہ غیروں کے کام کس
حد تک قانونِ فطرت کے مطابق ہیں اور ہم کہاں کہاں قانونِ فطرت کی خلاف ورزی کر رہے
ہیں۔۔۔؟
ہمیں اپنے آپ کو انفرادی منزلوں میں دیکھنے کی ضرورت ہے، جب تک ہم اپنے آپکو
انفرادی طور پہ قانونِ فطرت اور دینِ اسلام
کے مطابق نہیں ڈھالیں گے تو کیسے ہم روزِ حساب کامیابی کی اُمید لگائے بیٹھے
ہیں۔۔؟
جب ہم اپنے آپ کو انفرادی طور پہ صحیح راستہ کی طرف ترغیب دیں گے تو پھر
اجتماعی طورپہ بھی خود بخود ہمارے مزاجوں میں تبدیلی اور حالات پہ قابو پانے اور
دنیا میں اپنی خستہ حالی سے چھٹکارا پانے کی اور بحثیت مسلمان اپنا دینی تشخص
اُبھارنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ اور یہی معاملات ہمیں دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں
بھی اللہ اور اللہ کے حبیب اور ہمارے آقا کریم جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کے سامنے
کامیابی اور سُرخروہی کا موجب بنیں گے۔ یاد رکھیں
کہ یہود ونصاریٰ ہمیں بگاڑنے کیلئے انفرادی اور اجتماعی دونوں حالات میں
ہماری نفسیات سے کھیل رہے ہیں اور ہمیں دنیا میں ناکامیوں کے اُس گہرے اور گندے
گڑھے میں گرا چکے ہیں جس میں ہم مسلمان اپنا عظیم تشخص بھول کے محض دُنیاوی اسباب
کے پیچھے بھاگنا شروع ہوئے اور آج مِن الحیث القوم ہم کسی بھی ملک وطن یا ریاست میں ہیں ، مکمل بے بس اور
ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔۔۔!!!
آخرت کے حساب وکتاب اور فیصلوں میں بھی ہماری دنیاوی ناکامی مکمل اثر انداز
ہوگی کیونکہ ہمیں تو قانونِ فطرت یعنی دینِ اسلام سے روشناس کروایا گیا اور ہمارے
اسلاف نے بہت بڑی بڑی قربانیاں دیں اس دینِ حق کو ہم تک پہنچانے کیلئے ، مگر ہم
لوگ آج پوری طرح گمراہی کو ہی زندگی اور لذت کا آخری سامان سمجھتے ہوئے دنیا اور
آخرت کی ناکامیاں سمیٹ رہے ہیں۔۔۔۔۔!!!
ہم میں سے ایک بیماری ، صرف ایک بیماری "جھوٹ" نکل جائے تو ہم سے
زیادہ طاقتور اور اعلیٰ قوم ۔۔۔ قومِ مسلمان ہو گی، اور کوئی قوم ہمارے سامنے دَم
نہیں مار سکتی ، مگر ہم اس ایک برائی سے مذید ہزاروں برائیاں اپنی فطرت اور اپنے
کھاتے میں ڈال چکے ہیں، اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں میں ہی ہم مسلمان اپنا مسلسل
نقصان کر رہے ہیں ۔۔۔!!!
اللہ رب العزت ہمیں ہدایت ِ حق اور دین فطرت یعنی دینِ اسلام کی صحیح رہنمائی
عطافرمائے۔ آمین
No comments:
Post a Comment