Tuesday, October 18, 2016

Modern Insensitive and Courageous Mother



دوستو !
لکھنے کے لئے  آج جس موضوع کا انتخاب کیا ہے اس کی تحریک  میرے مطب پہ آئی  دو خواتین کی  اس  بے بسی سے ملی  جس کو بیان کرنا  بھی میرے لئے اذیت  ناک ہے۔۔۔
یہ معاملہ  ہمارے معاشرے میں سرطان کی طرح  پھیلتا  محسوس ہو رہا ہے اور اگر  بروقت ہم اس کو سمجھنے اور اس کے تدارک  میں کامیاب نہ ہوئے تو  ہماری موجودہ اور آنے والی نسلیں تباہ ہو جائیں گی ۔  آتے ہیں اصل معاملہ کی طرف۔۔۔
ایک صبح دو خواتین میرے مطب پہ آئیں اور یوں گویا  ہوئیں۔۔۔


 "حکیم جی! کوئی ایسی دوائی دے سکتے ہیں کہ "لڑکا فارغ ہو جائے۔"ایک ادھیڑعمر خاتون بولی جبکہ دوسری کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
میں ایک دم  چونکتے ہوئے  ان کی طرف متوجہ ہوا۔      کسی خاتون کی زبان سے ایسے الفاظ   کا بیان ہونا میرے لئے حیران کن تھا۔
"  بی بی! فارغ سے آپ کا کیا مطلب ہے،  کچھ سمجھا نہیں۔"میں بولا
"وہ دراصل لڑکا خراب ہو گیا ہے اور غلط حرکتوں میں پڑ گیا ہے۔"ادھیڑعمر خاتون پھر سے اٹک اٹک کے بولی
"کیا کوئی نشہ وغیرہ کرتا ہے؟"سوال کی باری اب میری تھی
"نہیں، آپ سمجھے نہیں، کیسے سمجھاؤں، کیسے بات کروں؟"عورت کو الفاظ نہیں مل رہے تھے ۔ خاتون کے چہرے پہ پریشانی اور دماغ کے ٹوٹے ہوئے الفاظ سے آنکھیں ، چہرہ اور منہ کی کہنے بولنے کی صلاحیت مفقود ہوتی نظر آرہی تھی۔مجھے بھی پریشانی ہوئی کہ کہیں محترمہ کی جو حالت بن رہی ہے، اسے خود کچھ نہ ہو جائے، ایسی پریشان کن صورتحال میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے جب انسان انتہائی پریشانی کودل و دماغ کے مطابق پوری طرح بیان نہ کر پائے۔
"بی بی! آپ آسانی سے بلا جھجک بتائیں کہ بچے کو کیا بیماری ہے، آپ ایک مریض کیلئے بات کرنے آئی ہیں اور مرض انسان کی زندگی کا حصہ ہیں،اس لئے سکون سے بولیئے ، تاکہ مجھےسمجھنے میں آسانی ہو۔ بہتر یہی تھا کہ مریض آپ کے ساتھ ہوتا، چونکہ وہ ساتھ نہیں  اس لئے  آپ اس کا مرض کھل کے بتائیں ۔" میری سمجھ میں واقعی کچھ نہیں آرہا تھا کہ یہ خواتین کیا چاہتی ہیں۔
اچانک میں نے پوچھا "کہیں بچہ  اپنے ہی گھر میں تو نقب نہیں لگا رہا ۔(ایسے دو کیس میرے پاس پہلے بھی آچکے تھے ، جن کی تفصیل پھر کسی پوسٹ میں ہوگی)۔
 میرے اتنا بولنے کی دیر تھی کہ جیسے خواتین  کی زبانوں کا بندھ  ٹوٹ گیا  ،  
"حکیم جی۔۔ میرا بیٹا ہے،اس کی عمر سترہ(17) سال ہے، یہ اس کی پھپھو ہے، جبکہ میرے پانچ بچے ہیں جن میں سے دو بیٹیاں ہیں ،ابھی میں نے اسے پھپھو کو سوتے میں چھیڑتے دیکھا ہے، ہو سکتا ہے کہ کسی بہن کو بھی چھیڑا ہو،میں نے اسے کچھ نہیں کہا اور نہ ہی محسوس ہونے دیا کہ میں نے دیکھ لیا ہے،بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ جب میں نے دیکھا تو میرے حواس بند ہوگئے اورمیری زبان کچھ نہ بول سکی، ہم لوگ بہت پریشان ہیں، دو بیٹے میرے اس لڑکے سے بڑے ہیں ، سب سے بڑے کی شادی ہونے والی ہے، اب بہو بھی گھر لانی ہے، اپنی نند کو بھی کہیں نہیں بھیج سکتی ، یہ بیوہ ہے اور اس کی ایک بیٹی ہے۔میں بھی بیوہ ہوں۔اس کی بچی ابھی چھوٹی ہے اور شادی کے قابل نہیں ہے، یہ گھر کے اوپر کے حصے میں رہتی ہے ، نہ ہی میں اپنی بیٹیوں کو گھر سے کہیں اور بھیج سکتی ہوں ، آپ کوئی ایسی دوائی  دیں جس سے لڑکے کی یہ حِس مرجائے اور گھر کی عورتیں محفوظ ہو سکیں ۔۔۔ اس کے بھائیوں کو پتہ چل گیا تو وہ منٹوں میں اُسے مار ڈالیں گے ۔۔۔"وہ بولی اور بولتے ہوئے اس کی آواز رندھ گئی۔
 وہ بمشکل اپنے آنسوضبط کئے ہوئے تھی، جبکہ ساتھ والی عورت بے آواز روئے جا رہی تھی ۔
 خیر ۔۔۔ اب اس گھمبیر مسئلے کو سنوارنے کا کوئی نہ کوئی حل تو ڈھونڈنا تھا ، سو اس لڑکے کی ماں کو ایک عارضی دوا دی کہ اُسے سالن میں ملا کے کھلائیں یا کھیر بنا کےدوا ڈال کےکھلائیں اور اسے یہ بھی بتایا کہ  کسی بچے یا مرد کی حِس ختم نہیں کی جاسکتی، بےشک وہ بچہ  اپنے ارد گرد  کے ماحول   اور ایسے مواد تک  آسان رسائی کی وجہ سے  اس طرف چل پڑا ہے  اور اپنا  ضبط کھو چکا۔
مگر جب اُسے مقدس رشتوں کا احساس اک دم اندر سے توڑے گا تو ہوسکتا ہے کہ جلد ہی ذہنی مریض بن جائے ۔ اس لئے  ایسی صورت میں احتیاط لازم ہے۔"
 خاتون  پھر بول پڑی،"احتیاط  کیوں کروں   ، اب اس کی وجہ سے میں باقی افراد کو کہاں مار ڈالوں ،ایک اگر گندہ نکل آیا  ہے تو اُس کا  علاج  توکرنا ہے نا۔۔۔"
"بی بی !آپ کی سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں،وہ اب اپنے آپ کو روک روک کے صرف عام لڑکوں کی طرح نہیں رہا، وہ ذہنی مرض کے ابتدائی مسئلے میں پھنس چکا ہے اوراس طرح اُسے مزید توڑنے والی بات بن جائے گی، اس مسئلے میں پھنسانے سے وہ مزید مریض ہو جائے گا، وہ غلط عورتوں کے پاس جائے گا، دوائیں کھائے گا، اس طرح وہ ذہنی مریض ہو کر مزید نقصان کرے گا، آپ یہ دوااُسے کھلائیں ، مجھے اپنا نمبر دے جائیں، میں اس مسئلے کا کچھ حل سوچ کے دوبارہ آپ کو بلا لیتا ہوں کہ بچے کا بھی کچھ نقصان نہ ہو، آپ تسلی رکھیں، جو وہ کر رہا ہے، ابھی خون کے گھونٹ سمجھ کے پیتی جائیں،رات کو آپ دونوں بڑی خواتین میں سے ایک ایک جاگ کے پہرہ دیں، تاکہ وہ ذہنی عارضے سے کسی اور بچی کو نہ چھیڑ بیٹھے،اگر بچیوں میں یہ بات پھیلی تو بہت زیادہ نقصان ہوگا، ساری زندگی بچوں میں نفرت کا وہ پودا کھڑا ہوجائیگا کہ پھر کوئی بھی ایک دوسرے کے منہ لگنے کے قابل نہ رہے گا، آپ کا سارا گھر اک دم تباہ ہو جائے گا، ابھی اس بات کو پی جائیں، مجھے کوئی طریقہ کار ، اور اپنے شعبہ کے  ایکسپرٹس سے مشورہ کرنے دیں۔ اِن شاء اللہ، اس کا بہتر حل نکل آئے گا۔اگر آپ نے جلد بازی یا لڑائی ڈالنے کی کوشش یا مقدس رشتوں کےبارے میں  مار کے سمجھانے کی کوشش کی تو یا اُس کے دماغ کی شریان پھٹے گی یا پھر ہمیشہ کیلئے پاگل ہو جائے گا۔
اگر وہ پاگل ہوگیا تواُس کیلئے مقدس رشتے کچھ بھی نہیں رہ جائیں گے کیونکہ دماغ تو ختم ہو چکاہوگا اور دل کی جذباتی کیفیت صرف حیوانوں والی رہ جائے گی ، پھر آپ زنجیر باندھیں گی یا پاگل خانے میں پھینک آئیں گی۔ گھر اور باہر کی خواتین کیلئے ایک ناگہانی عذاب بن جائے گا۔ اس لئے جہاں آپ نےاتنا وقت نکالا وہیں تھوڑا سا اور دوچار دن نکالیں۔یہ مسئلہ ہوتے ہی تو آپ میرے پاس نہیں آئیں، کچھ سوچا ہوگا ، کچھ اذیت  اور پریشانی کے لمحے گزارے ہوں گے۔ اس لئے اب بھی جلدی کی بجائے ماں ہونے کے ساتھ ساتھ باپ ہونے کی بھی طاقت اپنے دل کو دیں تاکہ اس مسئلے کو سلجھایا جا سکے۔
دیکھئے! آپ اُسے اپنے سے دور تونہیں کر سکتی کیونکہ وہ آپ کی اولاد ہے"میں نے نرمی سے خاتون کو سمجھایااور دلاسا دیا۔اُن کی سمجھ میں میری بات آگئی اور کچھ وہ پریشانی سے آزاد ہو کے اطمینان کی طرف لوٹیں ، جو میرے لئے بھی خوش آئند تھا ۔
مریض کے ساتھ ساتھ لواحقین اپنے پیاروں کی بیماری کو غم بنا کے جب اپنے دل میں بٹھا لیں تو وہ خود اپنے مریض کا ساتھ دینے کے بھی پوری طرح قابل نہیں رہتے، یہ ایک بہت بڑا نفسیاتی اَمر ہے۔
 خاتون جاتے جاتے پھر رک کے بولی" یہ دوا کس لئے دی ہے، اگر آپ نے ابھی مشورہ کرنا ہے۔"
"یہ دوا اس لئے دی ہے کہ وہ تھوڑا بیمار ہو جائے۔ ہفتہ دس دن آپ لوگ دیکھتے رہو، وہ عورتوں کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔اُسے اپنی پڑ جائے گی، پہلی حفاظت یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے آپ میں پریشان ہوجائے اور اُس کادھیان بٹ جائے، کسی ڈاکٹرکے پاس مت جانے دیجئے گا، اگر جانا چاہے تو آپ نے پیار سے  اس  کا دھیان  بٹانا ہے  کہ حکمت کی ٹھنڈی دوا کھاؤ ،تاکہ پیٹ کا نظام اچھے طریقے سے  سکون میں آئےیا پھر آپ کوجومناسب لگے اُس کی حالت دیکھ کےبات بنا لیجئے گا۔ اُسے ساتھ لایئے گا یا کسی بھائی کے ساتھ بھجوا دیجئے گا۔ تب تک میں کوئی نہ کوئی حل نکال لوں گا۔"میں نے جواب دیا
ٹھیک دو دن بعد مجھے خاتون کا فون آیا کہ اُسے موشن لگے ہوئے ہیں اور وہ بہت تنگ ہے ، ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتا ہے۔میں نے اپنا ہوم ورک کرلیاتھا۔اس لئے بچے کو بلوا لیا۔ میں اپنے ایک دوست سے مشورہ کرکے ایک چھوٹا سا ڈرامہ تیا رکر چکا تھا ، میں وہ ڈرامہ یہاں نہیں لکھناچاہتا کیونکہ یہ ڈرامہ جس کے ساتھ ہوتا ہے، ڈر کے پیچھے ہٹ جا تا ہے ۔یہاں لکھنے سے مطلب ساری فیس بک کو پتہ چلے گا تو کسی اور کے کام کا طریقہ نہیں بن پائے گا ،ہوسکتا ہے کہ وہ بچہ بھی فیس بک استعمال کرتا ہو،میں نے تو اس کی تصحیح اور رہنمائی کی ہے اس لئے بس اتنا ہے کہ اس لڑکے کے سامنے ایسا ڈرامہ کیا اور وہ خوفزدہ ہو کے ابتداء میں ہی باز آ گیا ۔ اسے اعصاب نارمل ہونے اورکچھ سکون کیلئے دوائیں دیں اور وہ خود ہی راہِ راست پہ آگیا ۔۔۔
اب آتے ہیں اس  مسئلہ کی اصل فسادی جڑ  کی طرف ۔۔۔
 جب ایک جوان ہونے والے بچہ اور بچی میں  جسمانی  تبدیلیاں رونما ہوتی  ہیں   تو  مائیں بیٹی کی تبدیلیاں تو جانچ لیتی ہیں  اوربیٹی کو مکمل  رہنمائی بھی فراہم کر دیتی ہیں،حتیٰ کہ اگر کسی بچی کی ماں زندہ نہ ہو تو تب بھی خواتین رشتہ دار ، ہمسائی خواتین یا دوست لڑکیاں مکمل رہنمائی دیتی ہیں کیونکہ وہ اللہ کے اس نظام کو ہر عورت کیلئے لازم سمجھتی ہیں،  مگر  بیٹوں  کو باپ کی طرف سے اس  حوالے سے تربیت کا فقدان نظر  آتا ہے، بیٹے کے معاملات میں باپ سمیت تمام مرد رشتے اپنے بیٹوں کو معاشرے کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیتے ہیں اور لڑکے ایک دوسرے کو جہاں کہیں سے کچھ سنا دیکھا اور جتنی سمجھ آئی نہ آئی، اگلے پوچھنے والے کو بتاتے پھرتے ہیں ۔  حالانکہ  واضح  طور پر  ہمارا دین  اس بات کا حکم دیتا  ہے کہ بیٹوں  کے جوان ہونے پر باپ  ان کی رہنمائی کرے تاکہ وہ  جسمانی  طور پر ہونے  والی تبدیلیوں کو مکمل قبول کریں اور بے راہ روی کے رستے کے راہی بننے سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔
اس ماں نے  تو  بہادری اور سمجھداری دکھائی  مگر ہمارے معاشرے میں کتنی  مائیں ہوں گی جو ایسے حالات میں  سمجھ داری کا مظاہرہ  کرتے ہوئے  کسی  سے مشورہ  کے لئے گھر سے نکلتی ہیں،  ویسے بھی یہ ماؤں کے نبٹنے کا کام بھی نہیں ہے۔
نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے آزادانہ میل جول نے بہت سی خرافات کو جنم دیا ہے۔ رسمی بات چیت دھیرے دھیرے لمبی ملاقاتوں اور پھر جنسی تعلق میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ 
ہر وقت ڈرامے،فلمیں ، گانے اور عورت دیکھ دیکھ کر لڑکوں کے دماغ میں جنسی ٹیوبز(رطوبتیں) متحرک ہو جاتی ہیں جو کہ میاں بیوی کے درمیان وظیفہ زوجیت کے وقت متحرک ہوتی ہیں ، مگر جب جنسی افعال ادا کرنے کا معاملہ نہ  ہو سکے تو  یہ بیماری بن کے لڑکوں کے دماغ میں جنسی غلاظت  کا باعث ہو جاتی ہیں۔   اسی لئے بلوغت کے فورا بعد شادی کا اسلامی حکم صرف اور صرف اسی چھوٹی مگر اہم وجہ سے ہے کہ کوئی بھی انسان خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی، بلوغت کے فوراََ بعد اپنےساتھی سے مل کر اپنی دینی اور معاشرتی زندگی گزارے۔نکاح السنت ﷺ سے زیادہ قیمتی اور بہترین اَمر اور کوئی بھی نہیں ، آپ ﷺ کے بے شمار احسانات کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ نے انسانی نفسیات کو بھی ہر نظر اور ہر پہلوکو مدِنظررکھتے ہوئے احکامِ معاشرت جاری فرمائے۔
 (آپﷺپر لاکھوں کروڑوں درودوسلام)
کچھ بچے ذہنی مریض بھی دیکھے ہیں جن کی یہی جنسی خواہشات  متحرک ہو کر ان کی زندگی تباہ کر گئیں اور وہ پاگل خانے کی سلاخوں میں زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں(اس میں لڑکیاں اور لڑکے سبھی شامل ہیں)۔
یاد رہےکہ مردوں کو الزام دینے والےاپنے مردوں کی زندگیوں سے خود کھلواڑ  کرتے  ہیں ،آپ خود دیکھ لیں کہ یہ قدرت کے بنائے ہوئے نظام ہیں کہ لڑکے کے جنسی افعال تیس سیکنڈ سے دو منٹ میں متحرک ہوتے ہیں اور سات لیٹر خون سر سے پاؤں تک گردش کرتا ہے ، جسے کچھ لڑکے اپنے جسم سے کھیل کر تباہ کرتے اور کچھ اپنے آپ میں مر مر کر جیتے ہوئے شادی کے انتظار میں اپنی جوانی بیتا دیتے ہیں۔ جبکہ ایک لڑکی یا عورت میں جنسی خواہش کے معاملات متحرک ہونے میں پچیس سے تیس منٹ لگتے ہیں ۔ اب اس فرق پہ آپ سارے کا سارا الزام لڑکوں پہ ڈال دیں اور گلیوں بازاروں میں لڑکیاں آنکھ مٹکے، ٹائٹس اور کیپریوں کی نمائش کرتی پھریں اور ساتھ ساتھ "تیری آیت پہلے اور میری آیت بعد میں"کا شوشہ چھوڑ کے دوسروں کی اولادوں کی تباہی کا سامان بنتی رہیں تو یہ کہاں کا انصاف ہے۔
عورت اورمرد اس معاشرے اور خاندانی اکائیوں کے دوستون ہیں اور ان ستونوں کوتوڑنے کے اسباب اس طرح پیدا کئے گئے ہیں کہ غیرمحسوس طورپر طاغوتی طاقتیں میڈیا  اور  بے راہ روی  کی تحریک  پیدا  کرنے والے مواد  تک  آسان رسائی  سے وہ تباہی لا رہی ہیں جن سے ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں
نوجوان نسل میں منفی سرگرمیوں اور جنسی تعلقات کی جانب رغبت کی بڑی وجہ ماحول میں موجود گھٹن ہے۔
پندرہ سال پہلے کے  ماضی قریب میں نوجوانوں کو کھیلوں اور دیگر مثبت سہولیات کے لئے جو سہولیات میسر تھیں، وہ اب موجود نہیں۔ اس طرح بچوں کا رجحان منفی سرگرمیوں کی طرف بڑھتاجارہا ہے ۔
یہاں یقینا کچھ ذمہ داری ریاست اور اس کے اداروں کی بھی بنتی ہے کہ نوجوان نسل کو تعلیم، صحت وتفریح کے مواقع اور وسائل کی فراہمی کو یقینی بنانے اور مثبت سرگرمیوں کے فروغ کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں، اور فحاشی کے پھیلنے میں جو عناصر کارفرما ہیں ، ان کے تدارک کے لئے ہنگامی بنیادوں کے لئے کام کیا جائے۔
 اگر جنسی  بے راہ  روی  کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش نہ کی گئی    تو    معاشرہ  دن بہ دن  اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتا چلا جائے  گا۔
 ذیل میں کچھ اسباب  پر اگر ہم قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں تو شائد ہم  آنے والی نسلوں کو اس  انسانی شخصیت کے سرطان سے بچانے میں کامیاب ہو جائیں:-
٭          فحش لٹریچر کی بھرمار
٭        میڈیا  اور جنسی مواد تک آسان رسائی
٭           فحش ویب سائٹس
٭        بری صحبت
٭        جنسی تشدد کا شکار بننے والو ں کی ذہنی کیفیت
٭        مذہب  اور تربیتی  نظام سے دوری
٭          والدین اور اولاد  کے درمیاں فاصلہ
٭          نکاح  میں غیر ضروری  تاخیر
٭          جرم و سزا کا کمزور نظام
اپنی نسل کو اسلام کے راستے پہ لائیں ، انہیں مسائل سے خود آگاہی دیں، کم ازکم باپ کا یہ فرض ہے کہ بیٹے کو تمام مسائل سے نرمی اور ملائمت سے آگاہ کرے تاکہ وہ کسی غلط روش کی طرف جانے کی بجائے اپنے آپ کو سنبھال کر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے۔اگرہرکوئی یہ ہی بول ہنس کے ٹالتا رہے گا کہ جدید دور ہے اور بچے خود ہی سب سیکھ لیتے ہیں تو وہ اپنی ہی اولاد پہ ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔معاشرہ آج جدت سے زیادہ بے حسی کے اَدوار طے کر رہا ہے، مغرب کی بے راہ روی اور احساسِ کمتری سے باہر نکلیں اور اپنی نسلوں کی بہترین تربیت کا سوچیں اور اپنے بچوں کو جہاں تعلیمی سرگرمیاں ہیں ،وہیں اپنے ساتھ قربت دیں، ان سے گپ شپ کریں، ان کے مسائل مسکراتے ہوئے سنیں اور ساتھ ساتھ نرم لہجوں میں غیر محسوس اور مناسب الفاظ میں تصحیح کرتے جائیں۔۔!! والسلام
تحریر: سفیرِ حق
پیشکش: دنیا پلس
٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھئے:  ساس اور بہو - ایک سچی کہانی

No comments:

Post a Comment