Friday, February 19, 2016

The Best Person



The Best Person

وہ ایک بہت ہونہار اور باادب بچہ تھا ۔ پل کر جوان ہوا تو قدرت نے مزید اس کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر دیا ۔وہ مقابلے کا امتحان پاس کرکے گورنمنٹ ملازم بھرتی ہو گیا اور اب گھر کا بڑا بچہ ہونے کی وجہ سے اُس کا رشتہ طے کر دیا گیا اور شادی کی چھوٹی چھوٹی تیاریوں میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں ڈھونڈنے کی سعی کی جا رہی تھی  اور ایسا ہونا بھی چاہیئے تھا۔ ایک بہترین کردار ، نماز روزے کا پابند اور ایک بہترین بااخلاق نوجوان جو آج کےدور میں "آٹے میں نمک کے برابر " بھی نہیں رہے ، کوئی اچھا نکل آئے تو واقعی عجب سا محسوس ہوتاہے ۔
مگر ہائے رے ۔۔۔ اس کو تقدیر کہیں ۔۔۔ یا بدنظری کہیں یا مقدروں کا کھیل کہیں ۔۔۔ تیس دن ۔۔۔ پورے تیس دن رہ گئےتھے اُس ہونہار کی شادی میں ۔۔۔

اُس رات  وہ رات کا کھانا کھا کے باہر اپنے دروازے کی سیڑھی پہ کھڑا ہو گیا ، ابھی صرف سوا دس کا ٹائم تھا کہ اچانک لائٹ چلی گئی۔ واپڈا کے لوڈشیڈنگ شیڈول کے مطابق لائٹ چلی گئی اوروہ دروازے پہ ہی موبائل نکال کے اپنے دوستوں کے پیغامات پڑھنے لگا۔۔۔۔۔ اتنے میں ہی ساتھ والی گلی سے ایک موٹرسائیکل والا آیا  اور بولا ، " موبائل مجھے دے دو ، ورنہ ۔۔۔" وہ ہونہار بھی جوان خون تھا اور پھر ایسے کوئی کیسے اپنے ہی گھر کے دروازے پہ تقدیر کے کھیل کو آتادیکھ سکے ۔ ۔۔

دروازے کے اندر سےاُسی وقت باپ کی بوڑھی آواز آئی، " بیٹا! کون ہے ، کس کے ساتھ باتیں کر رہے ہو ۔ ؟" وہ موٹرسائیکل والا موبائل چور تھا ، اندر کی آواز سے ڈر کر مبادااندر سے کوئی باہر نہ نکل آئے ۔ چور پھر سے غرایا ، " موبائل دیتے ہو یا ۔۔۔" اور ساتھ ہی اس نے فائر کر دیا ، ایک۔۔۔ دو ۔۔۔فائر۔۔۔ بوڑھے باپ کی آواز کا سوال دب گیا ۔۔۔ فرماں بردار بیٹے کو موقعہ نہ مل سکا کہ اپنے باپ کے استفسار بھرے سوال کا جواب فرمانبرداری سے دے سکے ۔

 موبائل چور نے موبائل چھینا اور یہ جا وہ جا ۔۔۔۔

 وہ خون میں لت پت ، بمشکل سیڑھی سے اوپر دروازے کے اندر کی طرف اپنا آپ گھسیٹ سکا  اور ساتھ ہی گر پڑا ۔۔۔ او پُتر نبیل کی ہویا ۔۔۔۔ جوان بیٹا باپ کی ناتواں اور کمزور بانہوں میں تڑپنے لگا ۔۔۔ گھر کے باقی افراد بھی دروازے کی طرف بھاگے اور خوفزدہ سی افراتفری مچ گئی ۔۔۔"نبیل کیا ہوا ۔۔۔ کیسے ہوا ۔۔۔ فائر کی تو آواز آئی تھی ۔۔۔ ملی جلی آوازیں ۔۔۔۔"

محلے دار بھی گھپ اندھیرے میں بھاگے چلے آئے ۔۔۔

 خون بہت بہہ چکا تھا مگر ہمسائے لڑکوں نے بہادری دکھائی اور اسے گھسیٹ کے ہمسائے کی کار میں ڈالا اور بھاگ نکلے ہسپتال کی طرف ۔۔۔۔ ابھی کچھ ہی سفر کیا ہوگا۔۔۔۔ مدہوشی میں باپ کو پکارا اور کلمہ پڑھتے ہوئے باپ کی بوڑھی ناتواں گود میں ہی جان ، جانِ آفرین کے سپرد کر دی ۔۔۔۔  باپ کی بڑھاپے سے چندھائی ہوئی آنکھیں بوڑھے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چھبیس کا لاشہ ٹٹولنے لگیں ۔۔۔ میرےپُتر ۔۔۔ میرے نبیل کی ہویا ۔۔۔ تینوں کج نئیں ہُندا ۔۔۔۔ حوصلہ کرپُترا۔۔۔  بس ہسپتال آگیا اے ۔۔۔نبیل ۔۔۔ او یار گڈی تیز کرو یار ۔۔۔ اوئے اے تے ساہ وی نئیں لیندا پیا ۔۔۔او بھجاؤ (بھگاؤ)یار گڈی ۔۔۔ ہجے ہسپتال کنہ دور اے ۔۔۔ او کسےنکے (پرائیویٹ) ہسپتال کول ای گڈی روکو یار ۔۔۔او پُتر کج بول تے سئی ۔۔۔ اوئے ہسپتال آ گیا اے ۔۔۔ او حوصلہ رکھ پُترا ۔۔۔  تینوں کج نئیں ہوندا۔۔۔ ہُنے تُوں ٹھیک ہو جائیں گا۔۔۔بڑے ہسپتال کی طرف بھاگنے کی بجائے  قریبی ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ہی گاڑی روک لی گئی  ۔۔۔  سٹریچرکی مہلت نہیں تھی ، چھوٹے بھائی نے ہمسائے لڑکے کےساتھ مل کر ہی ایمرجنسی پہنچا دیا ۔ مگر وہ سب ایمرجنسیوں، سب امدادوں  سے ماوراء کب کا اس فانی دنیا کو چھوڑ چکا تھا ۔۔۔ کلمہ پڑھتے کے اَدھ کھلے ہونٹ ویسے ہی وا تھے ۔۔۔ ڈاکٹروں نے دیکھتے ہی جواب دے دیا کہ اس کو دنیا چھوڑے ہوئے بیس پچیس منٹ ہو چکے ۔۔۔ بوڑھا باپ وہیں زمین پہ  ڈھے گیا ۔۔۔ اس کی اُمید جو ختم ہو گئی تھی ۔۔۔ چندھیائی ہوئی بڈھی آنکھوں میں سے آنسو بھی پوری طرح بہہ نہ پا رہے تھے ۔۔۔ وہ اپنے صافے سے اپنی آنکھیں ملتا ہوا پھر سےآس اُمید لے کر پاس کھڑے لڑکوں کا سہارا لیکر اُٹھا اور پھر سے کپکپاتے ہونٹوں سے بولا ،" ڈاکٹر صاب! اک واری فیر تے چیک کر لوؤ۔ شید (شاید) کوئی کج ہو سکدا ہووے ۔۔۔" ڈاکٹر بھی بابے کی کپکپاتی آواز سن کے ہل گیا، "بزرگو ! کچھ نہیں بچیا، گولیاں پھیپھڑے تے دل دواں نوں ای چیر پھاڑ گیاں نیں ۔۔۔ بس جوانی دے زور نال وی پنجی (بیس پچیس ) منٹ کَڈ گیا اے ۔۔۔ ہُن کج نئیں ہو سکدا ۔۔۔ اللہ تُہانوں صبر دیوے ۔۔۔" ڈاکٹر اتنا سا ہی بمشکل بول سکا ۔ پتہ نہیں کیا تھا اس نوجوان میں ۔۔۔؟

جوان بیٹے کا لاشہ اُٹھائے بوڑھا باپ اور چھوٹا بھائی محلے داروں کے ہمراہ گھر کی طرف واپس لوٹے ۔ گھر کے باہر اک ہجوم تھا۔ پولیس اپنی ابتدائی تفتیش کے نام پہ اپنی ہی بونگیاں (کاروائیاں) مار رہی تھی ۔ نبیل کا لاشہ گھر کے ساتھ ساتھ محلے کے لوگوں کیلئے بھی ایک کہرام بن گیا ۔ ہر آنکھ اشکبار تھی ۔ محلے داروں کے علاوہ پاس سے گزرتے مسافر بھی رک کے پوچھتے اور نم آنکھوں سے روانہ ہو جاتے ۔ماں نے بیٹے کا جوان لاشہ دیکھا تو وہ گم سم ہو گئی ۔ بہت کوشش کی گئی کہ کسی طرح رو پڑے دکھ کا لاوا اُبل کے باہر نکل جائے ۔ وہ بھی اپنے بیٹے کا دکھ اُس کے ساتھ ہی اللہ کے سپرد کر دے ۔ مگر ماں بول کے نہیں دی اور بیٹے کی چارپائی کے پاس ساری رات گُنگ بیٹھی رہی ۔ صبح وہ بھی قبرستان چل پڑی  اور اپنے بیٹے کو منوں مٹی کے نیچے دفن ہوتے دیکھ کر بھی نہ رو پائی ۔۔۔ چار دن گزرے تو ماں کو نبیل کی یاد آئی ۔۔۔ اور آج بھی راتوں کو وہ بے چین ماں جب دل تنگ پڑے تو قبرستان کے دروازے پہ جا کر " وے نبیل ، وے نبیل، تُوں بڈھی ماں تے بڈھے  پیو (باپ) نوں کلاکیویں چھڈآیاں  ایں۔ وے ساڈا وی کج خیال کردا، وے نبیل ، سانوں وی نال ای لَے آندا۔۔۔ وے پُترا، تیرا تے سہرا وی تیرے باجوں (بعد) کَلا رہ گیا اے ۔۔۔وے پُترا، اے تے ساڈے بڈھیا دا وقت سی جان دا ، وے اَسی تے تیرے موڈھیاں (کندھے) تے جانا سی ۔۔۔ تُوں تے کَلا (اکیلا) ای اگلے جہان ٹُر پیاں (چل پڑا) ایں ۔۔۔" کی صدائیں دیتی ہوئی پھر تی  ہےاوراگر کبھی یہ آواز سنائی دے جائے تو اندھیری رات کے خاموش سناٹے میں  یہ آواز دل وجگر چیرڈالتی ہے ۔۔ ۔

چھوٹے بھائی کی شادی نبیل کی منگیتر چچا کی بیٹی سے کر دی گئی ۔ قدرت جو بے پناہ رحیم و کریم ہے ۔ پہلا بچہ لڑکا پیدا ہوا ۔ وہ سارے کا سارا نبیل کا ہمشکل ۔ عجیب بات ، بولتا بھی ویسے ہی اور سب سے بڑھ کر نبیل کی طرح دادا دادی کا لاڈلا مگر دادی کے دل و دماغ کو لگا آٹھ سال پرانا نبیل کا زخم کوئی نہیں بھر سکا ۔ نبیل کے ہمشکل پوتے کے ساتھ دادی( ماں)  آج بھی جوان بیٹےنبیل کی قبر پہ روز صبح جا کے روتی ، صفائی کرتی اور دعا کرتی چلی آ رہی ہوتی ہے۔ اکثر آتے جاتے دیکھتے ہیں مگر کچھ نہیں کر سکتے اس حرماں نصیب ماں کیلئے اور اُس بڈھے باپ کیلئے جو اب بڑھاپے کی مزید منزلیں طے کرتے ہوئے دروازے پہ چارپائی بچھائے کھانستا ہوا اکثر نبیل کو یاد کرکے بے آواز روتا ہے  اور روز اپنی پاگل بیوی (نبیل کی ماں ) کو کہتا ہے کہ " پُت واسطے دعا کر ، او ساڈا پہلا کھنڈ داکھڈونا سی، چنگا سی تے گھبرو سی ، سوہنا سُلکھا (فرمانبردار)سی ، دعا کر بھاگےوان ساڈے پُت دا اگلا جہان سوہنا ہووے ۔ ۔۔

نبیل کی ماں قبرد یکھ کر بھی صبر نہ کر پائی اور نہ دماغ کی صحیح سطح پہ واپس آ سکی ۔ وہ بھی نبیل کے باپ کے پاس چارپائی پہ بیٹھی نبیل کا انتظار کر رہی ہے ۔۔۔

اکثر مغرب کی اذان کے ساتھ  اُس ماں کی آواز  گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہے ، " نی کڑیو! نبیل آندا ہونا اے ، پھلکے (روٹی) چنگی طراں بناویں ۔۔۔" اور پھر روز ہی وہ نبیل کی روٹی اک گزرتےہوئے فقیر کا پیٹ اس التجاء  کے ساتھ بھر دیتی ہے کہ " بابا جی / آپاں جی ، اے میرے نبیل دی روٹی اے ، اونوں دعا دے دیویں ۔۔۔" اور بوڑھے ماں باپ اپنی آہستہ آہستہ بے نورہوتی  آنکھوں کو رگڑتے ہوئے خشک ہوئے آنسوؤں کو صاف کرنے کی ناکام سعی  کرتے ہیں ۔۔۔

 یہ  کہانی نہیں لکھی ۔ یہ ایک علاقے کاسچا واقعہ ہے اور آٹھ سال گزر چلے ، وہ ایک "نوکیا گیارہ سو "  کا موبائل کتنی زندگیوں کو گھائل کر گیا ۔۔۔

نبیل کا باپ جوکل تک پھیری لگا کے سبزی بیچ لیتا تھا ، اک دم ہی بڈھا ہو گیا، چلنے پھرنے سے قاصر ہو گیااور نبیل کی ماں پاس بیٹھی ہر وقت نبیل کو دعائیں دینے میں مصروف رہتی ہے ۔ چھوٹا بیٹا صبح منڈی سے سبزیاں لے آتا ہے ، اورباپ کی ریڑھی  پہ پھیری لگاتا ہے اور یوں اپنے دکھوں کی گھائل زندگی کی گاڑی کو دھکیلتے دھکیلتے چلے جا رہے ہیں ۔۔۔

پتہ نہیں ،  کتنے ہی نبیل اس موبائل چوری اور اِن راہ چلتے ڈکیتوں کی نذر ہوچکے  ، کتنے ہی گھر اُجڑ چکے ، محض اک اس سڑے موبائل کی خاطر، جو پتہ نہیں دو چار سو کا بعد میں بکتا ہوگا یا دو چار ہزار کا ۔۔۔

 مگر جن کی اولاد ایسے واقعات میں چلی گئی وہ تو کبھی بھی واپس نہیں آ سکتی ۔۔۔!!!
٭٭
٭
٭٭ مزید پڑھیئے :  مسڈ کال

No comments:

Post a Comment