Saturday, December 3, 2016

Bad Attitudes...


http://dunyaplus.blogspot.com/2016/11/normal-0-false-false-false_11.html#more
زندگی کے مدوجزر بہت عجیب بن چکےہیں۔معاشرتی سطح پہ مچی ہوئی افراتفری اور حسدوبغض کے افعال  ماری عوام کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔کچھ ہماری بے وقوفیاں اور کچھ جلدی سب کچھ حاصل کرنے کے چکر میں۔ یوں لوگ وقت سے پہلے اور بہت کچھ حاصل کرنے کیلئے غلیظ کاموں سے بھی نہیں چوکتے۔۔۔
اپنی بیاض کھنگالتے ہوئے آج یہ اذیت ناک کہانی سامنے آگئی۔۔۔
سوچا۔۔۔آپ سب سے بھی شئیر کردوں۔۔۔
ایک لڑکی نما عورت میرے مطب پہ تین سال پہلے آئی تھی،جوطویل اور صبرآزما  علاج کے بعد اپنی زندگی میں واپس آئی۔۔۔
بات کچھ یوں تھی کہ ایک دوپہر وہ نووارد لڑکی میرے مطب پہ آئی۔ اس سے پہلے  کچھ خواتین و حضرات کو میں دوائیں دے رہا تھا ،
 جب اس کی باری آئی تو پوچھا،"جی بی بی! تمہارا کیا مسئلہ ہے اورتمہارے ساتھ کون ہے۔"
"جی میری طبیعت نہیں سنبھل پا رہی، بار بار بخار اور عجیب سی تھکاوٹ ہے۔یہاں مطب کے قریب سے گزر رہی تھی،
تو یہیں رک گئی۔چلنا پھرنا محال ہوتا جا رہا ہے۔"وہ بولی اور ساتھ ہی نبض دکھانےکیلئے ہاتھ آگے بڑھایا۔
"تمہارے  ساتھ کون ہے۔" میں نے پھر اپنا سوال دہرایا
"میرے ساتھ تو کوئی نہیں، میں اکیلی آئی ہوں۔"وہ بولی
"بی بی!تم ایسا کرو کہ اپنے کسی محرم کو ساتھ لاؤ، پھر میں تمہارےمسئلے پر بات کر سکوں گا، دوسری ہر ایک صورت میں معذرت۔"میں بولا
 بہت ہاتھ لگ چکے ۔آج کی  دنیا بہت بے رحم ہے، جس کے ساتھ اچھا کرو، اچھائی کا وقت ابھی  مکمل بھی نہیں ہو پاتااور لوگ بے رحم رویئے پہ اُتر آتے ہیں۔آج کے وقت میں" کمہار کا آوہ" کم پڑ گیا ہے، اُس سے کہیں زیادہ ہمارا معاشرہ بے رحم ، بدبخت اور ذلت کی نہ ختم ہونے والی گہرائیوں میں گر چکاہے اور مزید گرتا جارہا ہے،ا ور اس سب کے ساتھ ساتھ یہ معاشرہ عزت کا بھی متقاضی بنتا ہے۔
 "حکیم صاحب! میں کافی دور سے آئی ہوں اور مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ دوبارہ جا کر واپس آ سکوں۔ آپ مہربانی کریں ، مجھے کوئی دوا دیں تاکہ میری طبیعت سنبھل سکے۔میں بہت مشکل میں ہوں۔"وہ روہانسی ہو گئی ۔
مجھے اپنے تمام پرانے زخم یاد تھے، یہ روہانسے لہجے اوریہ حسین و جمیل پریاں۔۔۔  چڑیل سے زیادہ بدترین معاملےاور ایسے ایسے ہاتھ دکھاجاتی ہیں کہ چودہ کے بھی اٹھائیس طبق روشن ہو جاتے ہیں۔
 میں نے فون اُس کے سامنے پڑے میز پہ رکھ دیا ، اور کہا،
"بی بی ! یہ رہافون۔۔۔ اپنے کسی بھی محرم مرد یا عورت کو جو تم سے عمر میں بڑی/بڑا ہو۔۔۔ بلا لو۔۔۔ میں دوا دے دیتا ہوں۔ میں بے رحم نہیں، مگر میرے ساتھ بہت سے کھلواڑ ہو چکے،کس کس کا اعتبار کروں۔؟"اور وہ چپ ہو گئی، چند ثانیئے سوچنے کے بعد اُس نے اپنا موبائل نکالا اور فون کیا۔۔۔
فون پہ بولنے سے پتہ لگا کہ دوسری طرف اُس کی ماں تھی۔ اُس نے مطب کاایڈریس سمجھایا اورساتھ ہی گاڑی لانے کو کہا کہ اُس کی طبیعت بہت خراب ہے، اور وہ اس مطب پہ رکی ہوئی ہے۔میں نے دوائیں بنانے والے دونوں میں سے ایک لڑکے کو مطب کے دروازے میں کھڑا کر دیا، اللہ کی رحمت ہوئی اور اس کی ماں کے پہنچنے سے پہلے دو مریض خواتین مزید آ گئیں، اب وہ لڑکی میرے مطب میں اکیلی نہیں ہے، اللہ نے اپنی مدد بھیج دی۔میں ان خواتین کی طرف متوجہ ہوا ۔ان کی دوا تشخیص کرنے لگا ، ساتھ ہی ان کو باتوں میں لگا لیا اور جان بوجھ کے دیر کرتا رہا کہ مذکورہ لڑکی/خاتون کی اماں حضور کے آنے تک وہ خواتین میرے مطب میں ہی رہیں تو بہتر ہے ۔مطب میں ویسے تو ہر وقت کسی نہ کسی کا آنا جانا لگا رہتا ہے مگر گرمیوں کی سخت دھوپ میں کچھ دیر کو دُنیا سکوت سی کر جاتی ہے ،کبھی کبھی۔۔۔
قریباََ آدھے گھنٹےبعدمذکورہ لڑکی کی والدہ آ گئی، گاڑی بھی ساتھ اورٹھنڈے ٹھنڈے اے سی سے مطب میں داخل ہوتے ہی"یہاں تو بہت گرمی اور بساند ہے، اوئے ہوئے۔۔یہ تم کہاں آگئی ہو گُڈی۔۔ یہاں سے تمہیں کیا ملنے والا، ڈاکٹروں کے پاس علاج ہوتا ہے ، ان حکیموں کی پھکیوں سے کب کوئی ٹھیک ہوا ہے۔جو تم یہاں چلی آئی ہو۔۔"بولتے بولتے گُڈی کی اماں حضور گُڈی کے پہلو میں تشریف فرما ہو گئی۔ میں چپ چاپ مسکراتا رہا۔ دوسری خواتین کی دوائیں تیار کرکے اُنہیں دیں ، اور مذکورین کی طرف متوجہ ہوا۔
"جی محترمہ ! ا ب فرمایئے، کیا مسئلہ ہے، لائیں نبض دکھائیں۔ مجھے جو لڑکی کی آنکھیں دیکھ کر شک گزرا تھا ، وہ یقین میں بدل گیا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مناسب ہو گا کہ لڑکی کی نبض محسوس کرتے ہی میں دہل گیا۔شاید لڑکی اور اُس کی والدہ بھی نوٹ کر رہی تھیں۔ اس لئے میرے بولنے سے پہلے ہی لڑکی بول پڑی"حکیم صاحب، کیا ہوا۔ آپ ۔۔ سب خیر تو ہے نا۔"
 میں نے لڑکی کی بات اَن سُنی کی اور لڑکی سے کچھ سوال جواب شروع کر دیئے جو عام پڑھنے والوں کیلئے اتنی دلچسپی کا باعث نہیں ہیں ماسوائے اس کے ، کہ لڑکی مطلقہ تھی اور طلاق کے بعد بیوقوفیاں اور شوخیاں (اب اور کیا لکھوں ان دو الفاظ کے علاوہ۔۔۔ سبھی جانتے ہیں کہ کیا بیوقوفیاں اور شوخیاں ہوتی ہیں )کرتے ہوئے ایک عذابِ ناگہانی میں پھنس چکی تھی۔میں نے سوال جواب کے بعد اُسے عارضی افاقے کیلئے وہیں ایک دوا دی کہ کم ازکم گھر توبخیریت پہنچ جائے، میں حیران تھا کہ لڑکی نے بازاربھی گھوم لیا اور مطب تک بھی اپنے پاؤں پہ چل کے پہنچ گئی۔ اللہ کی قدرت ہے ، وہ انسان کو اُس کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔
"بی بی! آپ جلد سے جلد اپنے ٹیسٹ کروائیں، آپ کی حالت ٹھیک نہیں ہے، نبض بھی واضح نہیں ہو رہی (یہ میں نے بات بنائی تھی تاکہ وہ ٹیسٹ ضرور کروا لے، بہت سے نفسیاتی حربے اس انسان نامی مخلوق کو صحیح سمت کی طرف راغب کرنے کیلئے استعمال کرنے پڑتے ہیں)۔ نبض ایک سو ایک فیصدلڑکی کے اندر کا حال بتا چکی تھی۔
"حکیم صاحب! کچھ تو بتائیں، آپ نبض دیکھتے ہوئے پریشان ہو گئے تھے۔کیا بات ہے۔؟"لڑکی پھر بولی
"بی بی! نبض واضح نہیں ہو رہی ، جلدی سے اپنے خون کے تمام ٹیسٹ کرواؤ۔ میرے سے علاج بے شک مت کروانا ، لیکن ہو سکے تو اپنی رپورٹیں مجھے لازمی دکھا جانا۔ تیری ماں بھی ساتھ ہے اور گاڑی بھی ہے، ابھی چلی جاؤ، دیر مت کرو۔ شام تک  یا کل تک رپورٹ مل جائے گی۔ ایک بات اگر ڈاکٹر تمہارا علاج نہ کریں یا پریشانی کی انتہاء بھی ہوجائے۔ تب بھی میرے مطب پہ ضرور آنا۔جو بھی نتیجہ ہو مجھے بتا جانا، میں حیران ہوں کہ تم میرے مطب تک پہنچی کیسے ہو، نبض کیوں واضح نہیں ہے۔"میرا جواب
"حکیم صاحب ! آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے نا ۔ آپ بچی کو ہولائے دے رہے ہیں، بار بار بخار آنا اتنی بڑی بیماری تو نہیں ہوتی۔فضول میں آپ لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ چل اُٹھ، چل یہاں سے۔"گُڈی کی ماں بولی اورساتھ ہی گُڈی کا بازو پکڑ کے اُس کی ماں بولتے بڑبڑاتے چلی گئی۔
میں واقعی حیران تھا کہ یہ لڑکی آئی تو آئی کیسے۔۔۔ خیر اب یہ ان دونوں خواتین پہ منحصر تھا کہ کیا عمل درآمد کرتی ہیں۔میں صبح آٹھ بجے مطب کھولتا جبکہ لڑکے دس بجے کام پہ آتے تھے۔میری روٹین میرے استاد محترم کے زمانے سے یہی تھی۔
مذکورہ لڑکی دودن بعد اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ میرے مطب پہ آگئی۔ چہرہ پیلا زرد۔۔۔ کاٹو تو لہو نہیں والا حساب۔۔۔ مجھے ان تمام حالات کا پہلے سے نبض دیکھتے ہی پتہ چل چکا تھا مگر میرا یہ کہنا کسی بھی طور مناسب نہیں تھا ، اسی لئے ٹیسٹ کروانے بھیج دیا تھا تاکہ جو کچھ بھی ان کو پتہ چلے ،لیبارٹری اور ڈاکٹروں سے پتہ چلے، آج کے دور میں حکیم جتنا مرضی قابل ہو ،اب اس پیشے کی کوئی قدر نہیں ، اس لئے سخت قسم کی بیماریاں بتانے سے اجتناب برتنا پڑتا ہے ۔اب حکمت میں صرف گزر اوقات کے معاملات ہیں کیونکہ کروڑوں روپے کی دیسی جڑی بوٹیاں تلف کرد ی جاتی ہیں اور کچھ ایلوپیتھک کمپنیوں والے بولیاں لگاتے ، خریدتے اور دریا بُرد کروا دیتے، اور کمپنیاں سکون سے اپنی ادویات کےریٹ بڑھا کےنقصان پورا کر لیتی ہیں۔ زیادہ دور نہیں، سن 2008 میں تین سے چار سو روپے تولہ زعفران کی قیمت تھی اور اب نقلی زعفران بھی بائیس سو سے پچیس سوروپے فی تولہ میں دستیاب ہے، کیا قلت پڑ گئی ہے،؟
 نہیں، صرف عوام کو الوّ بنایاجاتا ہے۔ اللہ کی قدرت سے پیدا ہونےوالی اشیاء میں کمی نہیں آیا کرتی ، بلکہ انسان کبھی زخیرہ اندوزی اور کبھی تلف کرکے قدرت کے کارخانے اور نظامِ کائنات میں خلل ڈالنےکی کوشش کرتا رہتا ہے۔اب آتے ہیں اصل مریض اور اس کے بھیانک مرض کی طرف۔۔۔!!
گُڈی اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ مطب پہ پانچ دن بعد آئیں۔
"حکیم صاحب! ہم تو لُٹ گئے۔ برباد ہو گئے۔۔۔"
گُڈی کی ماں کاپانچ دن پہلے والا انداز۔۔۔
لڑکی نے بھی مردنی چہرے سے رپورٹیں میرے سامنے میز پہ رکھ دیں۔ میں نے ان کی تسلی کیلئے رپورٹیں دیکھنی شروع کردیں، اگر میں ان کو بغیر رپورٹ کروانے کےکہہ بول دیتا کہ لڑکی کو خواتین کا مخصوص کینسر ہے تو شاید گُڈی کی اماں حضورکم ازکم میرا سر پھاڑ ڈالتی۔کینسر بھی اندامِ نہانی(بچہ دانی)  کا۔ بہت ہی موذی ترین کینسر ہے جو بہت سی خواتین کی جان لئے بغیر نہیں ٹلتا۔میں نے لڑکی کے بھائی کو باہر بھیجا اور خواتین کی طرف متوجہ ہوا، "لڑکی کی آنکھوں نے مجھے کافی حد تک بتا دیاتھا، نبض بھی صحیح کام کر رہی تھی، صرف آپ لوگوں کو قائل کرنا تھا۔ کسی ڈاکٹر کے پاس گئی ہیں آپ۔"میں بولا
"جی، ڈاکٹر تو کہہ رہے ہیں کہ آپریشن کروائیں ۔ یہی اس کا آخری حل ہے۔اور کوئی صورت علاج کی نہیں ہے۔"لڑکی بولی
"ٹھیک ، اب آپ لوگ بتائیں گی کہ کیا کرنا ہے۔ڈاکٹروں نے آپ کو اس کا حل توبتا دیا ہے۔رپورٹیں دکھانے کا شکریہ۔ باقی میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں۔"میں نے پوچھا
"میں آپریشن نہیں کروا سکتی، پھرمیں دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکتی۔میرے جرموں کی پہلے ہی مجھے  سخت سزا مل چکی ہے۔"لڑکی بولی اورساتھ ہی اس کی آنکھیں ابل پڑیں۔ ماں بھی آج چپ تھی، اور نم آنکھوں سے الفاظ ڈھونڈنے کی کیفیت میں گومگو تھی۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد میں نے ہی سکوت توڑا۔
"تمہارا علاج ممکن ہے۔ کوشش کی جاسکتی ہے۔ اللہ کے ہاں رحمت کے لازوال سمندر موجود ہیں۔تمہیں اپنے آپ کو اللہ کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔"میں نے اُسے دلاسا دیا
"ہم اس لئے آئے ہیں کہ جب نبض سے آپ کو سب کچھ پتہ چل گیا تھا اور مزید رپورٹوں نے بھی حقیقت کھول دی ہے ۔آپ ہی علاج کریں، یقیناََ آپ کے پاس علاج ہو گا، ورنہ اتنی سخت بیماری آپ کو کیسے پتہ چل سکتی ۔اگر میری بیٹی کا آپریشن ہو گیا تو یہ کسی بھی صورت دوبارہ ماں نہیں بن پائے گی ۔کون ایک بانجھ لڑکی سے شادی کرے گا۔"لڑکی کی ماں بولی
"بی بی!میرے پاس علاج ضرور ہے کوشش کا۔۔ ۔ شفاء اللہ پاک کے پاس ہے۔ میری تو ڈیوٹی لگی ہے اور مجھے دوا دینے کاحکم ہے۔ آگے مریض اور اللہ کا معاملہ ہوتا ہے۔ مریض اپنے رب کو کتنا راضی کرلیتا ہے کہ شفاء  کے نایاب دروازے کھل جاتے ہیں۔اب یہ آپ لوگوں کی مرضی سے ہی سب معاملات صحیح ہو سکتے ہیں۔"میں نے جواب دیا
میں ہر طرح زندگی میں واپس آنا چاہتی ہوں حکیم صاحب۔"لڑکی نے چادر کے پَلّو سے آنکھیں رگڑ کے پونچھیں اورعزم سے بولی
"ٹھیک، مگر جوسب کچھ تم کر چکی ہو، اس سے  توبہ کرنی ہو گی آئندہ جب تک زندگی ہے ۔شادی ہو یا نہ ہو، غلط راستے پہ کسی بھی صورت نہیں جاؤ گی ، یہ شرمندہ کرنے کیلئے نہیں بلکہ اللہ کے سامنے پاک صاف پیش ہونے کا صرف مشورہ دے رہا ہوں ، باقی تمہاری اپنی مرضی۔ میں کسی کو دوا کے پرہیز کے علاوہ پابند کرنا پسند نہیں کرتا ، سب کی اپنی اپنی زندگی ہے اور ہر کوئی اللہ رب العزت کے سامنے خود ہی جوابدہ ہے ۔"میں نے لڑکی کی بات کا جواب دیا، مگر لڑکی تو جیسے پھٹ پڑی ۔۔۔ یا۔۔۔ شاید مجھے لگا کہ میں نے بارود پہ پاؤں رکھ دیا ہو ۔۔۔
برداشت کی حد ختم ۔۔۔اورلڑکی اک دم غضبناک ہو کے بولی۔۔۔
" یہ سب میری اس ماں کی مہربانیاں ہیں، یہ ظلم اورمصیبت صرف اس ماں کی وجہ سے میری زندگی میں آئے، اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ کینسر نہیں بلکہ میرے ہی کاموں اور کرموں کی سزا ہے۔ میری ماں نے اپنےویلے اور چہیتے بیٹوں کے گھر بھرنے کیلئے مجھے طلاق دلوائی، اور میں آٹھ لاکھ روپیہ ساتھ لائی ہوں ، جس سے یہ میری ماں اور میرے بھائی عیاشی کررہے ہیں۔  میراشوہر انتہائی نفیس آدمی تھا، اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ میں اُس کی زندگی کی ساتھی رہوں، مگر میری ماں نے حق مہر لکھوایا ہی اِسی لئے تھا کہ وہ مجھے برباد کرکے واپس لا سکے اور اپنی تشنہ خواہشات پوری کر سکے۔ پتہ نہیں وہ کونسی مائیں ہیں اس دنیا میں ، جو بیٹیوں کے گھر بسانے کیلئے جائے نماز پہ ہر وقت نظر آتی ہیں۔ میری ماں نے تو یہ احسان کیا ہے کہ مجھے طلاق دلوا کے لے آئی۔ اور وہ بھی جادو کے عملیات کے ساتھ۔۔"
میرے سر پہ دوسرا بم پھٹا۔۔۔
" بی بی! تم ہوش میں تو ہو،کیا کہہ رہی ہوتم۔" میں نے اس کی بات کاٹی
"جو بات تم کہہ بول رہی ہو،اس طرح طلاق نہیں ہو سکتی ۔ اگر تم کسی اور سے نکاح کرو گی تو زندگی بھر گناہگار رہو گی،جس طرح نکاح کا اپنی مرضی اور سوچ کی آزادی سے فیصلہ کیا جاتا ہے ، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اسی طرح طلاق بھی مرد کی اپنی ذاتی سوچ، غصہ اور مرضی سے ہوتی ہے،عورت بھی اِسی طرح اپنی مرضی ، غصہ اور سوچ سے خلع حاصل کرتی ہے، جادوگری ہو یا کوئی اور دیگر عملیات، چاہے وہ قرآن پاک کے ہی عملیات کیوں نہ ہوں ، جس سے بھی انسان کو خواہ مرد ہو یا عورت کسی بھی فعل کیلئے مجبور کیا جائے،وہ فعل" مجبور انسان" پہ لاگو نہیں ہوتا۔اسی طرح عملیات کے معاملات نہ بھی ہوں اور "گن پوائنٹ" پہ ہونے والے نکاح۔۔۔ نکاح السنت ﷺ کی تصدیق پہ قائم نہیں ہوتے، اور نہ ہی "گن پوائنٹ" کی طلاق ۔۔۔ طلاق شمار کی جاسکتی ہے۔اسلام میں طلاق تو ویسے بھی ایسے طریقہ کار میں رکھی گئی ہے کہ کسی نہ کسی طرح میاں بیوی آخری یعنی تیسری طلاق سے پہلے تک اپنا گھر بچا لیں اور مفاہمت کا کوئی رستہ نکل آئے۔ باقی فتوے گیر جو مرضی کہتے رہیں ۔۔۔یا تم ایسا کچھ بھی کرتی رہو، وہ تم سب کی اپنی اپنی مرضی ۔۔۔" الامان الحفیظ۔۔۔
"جی ، میں بالکل صحیح کہہ رہی ہوں، آپ نے جو کچھ نبض میں محسوس کیا ، وہ سب صحیح اور سچ ہے، میرا مرد مجھے طلاق نہیں دیتا تھا اور خلع کی صورت مجھے کچھ نہیں ملنا تھا۔اس لئے میری اِسی عظیم الشان ماں نے میری زندگی کو بیچ ڈالا، میں نے جس سے طلاق لی ہے ، اُسے میں روتا بلکتا چھوڑآئی ہوں ، اُس نے حق مہر کے دو لاکھ پہلے ادا کر دیئے تھے کیونکہ اسی شرط پہ رشتہ طے ہوا تھا، وہ کہتا تھا کہ حق مہر کےسب پیسےبیشک  اپنی ماں کو دے دو، اپنی اور میری زندگی برباد مت کرو۔۔۔ روزگھر بنانے آسان نہیں۔۔۔
مَیں نے اُس کی ایک نہ سُنی، آخر اِسی ماں کے کہنے پہ اُسے جادو کے تعویذ کھلائے پلائے ۔تب بھی آخر تک اپنے دماغ کی طاقت آزماتے ہوئے مجھے چھوڑنے اور طلاق لکھ دینے پہ آمادہ نہیں تھا، اُسے میری ماں نہ ختم ہونے والی بیماریوں کا تحفہ  دے آئی ہے، وہ انتہائی وجاہت کا مالک تین سال کےاندر پگھل کے لکڑیوں کا بُورا بن چکا ہے۔ اُس شریف انسان کے ساتھ زیادتی کی مجھے سزا مل رہی ہے، وہ اب کبھی کسی سے  شادی نہیں کرسکے گا، اور میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ میں بھی اکیلی رہوں گی، وہ سب ٹھیک کہتا تھا ،  میں اُسے برباد کرکے آئی،میں نے اپنی ماں کی بات مانتے ہوئے اُس کی زندگی برباد کی، وہ شرافت کا اعلیٰ پیکر تھا،آج کے زمانے میں جب عورت کو مرد ذلیل و رسوا کرتے نہیں تھکتے۔۔۔اُس نے مجھے بہت عزت و محبت دی۔۔۔
مجھے بھی کوئی حق نہیں کہ  کسی کو برباد کرکے اپنے لئے  خوشیاں ڈھونڈتی پھروں، میرے بھی سب حق ختم ہو گئے۔۔۔
 میری ماں اور بھائی سود کی گاڑی میں جھولے جھول رہے ، میرے باپ نے ہم دونوں بہنوں کیلئے ایک ایک پائی اکٹھی کی اور ہمارا جہیز بنا کے اس دنیا سے رخصت ہوا، میری ماں نے ہی میرے باپ کو بھی  کالاجادوکھلا پلا کے رخصت کیا۔اس میری ماں نے ایک دن بھی اپنے شوہر اور میرے باپ کو انسان نہ سمجھا۔ اس کی ہر وقت کی لالچوں نے ہم سب کو تباہ کردیا، میں اب چھوٹی بہن کی شادی خود  کروں گی، اور دیکھتی ہوں کہ یہ ماں اور اس کےبیٹے میرا رستہ کیسے روکتے ہیں۔ میری ماں ہی میرے لئے ڈائن بنی، جب سے گھر میں سود کا مال جمع ہوا ، ایک دن ایسا نہیں آیا کہ چین سے گزرا ہو، غلاظت ، بے چینی ، بے رغبتی ، اور ذلالت کے سوا ہمیں کچھ نہ ملا۔اس ماں  نے میری زندگی اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دی۔ میرے باپ نے ساری زندگی مزدوری کی، ہمیں پڑھایا لکھایا، تعلیم دی، لالچ سے روکا۔۔۔ خود کا کھانا ہمارے سامنے رکھ کے کہا کرتا تھا۔۔۔"لو بیٹا اور کھاؤ، مگر کسی اور کی طرف مت دیکھو، صرف رب کی طرف  دیکھو، جب اگلے گھر جانا تب بھی ناجائز خواہشات اور  لالچ میں مت پڑ جانا، اپنے شوہر کی عزت میں اپنی عزت ڈھونڈنا کیونکہ کل کوتم لوگ جب قیامت میں جوابدہ ہو، تو تم دونوں کو ایک دوسرے سے شرمندگی نہ ہو۔"
ہائے ، میرے نصیب۔۔۔
 نہیں، یہ  نصیب تو نہیں۔۔۔
یہ میرے کاموں کرموں کی سزا ہے،اس ماں کے ساتھ مل کر اپنے باپ کی توہین کرنے کی سزا ہے۔
 دن رات میں کوئی وقت ایسا نہیں آتا تھا جب میرا باپ سکون سے بیٹھا ہو، صرف چار پانچ گھنٹے میرے باپ کو نیند ملتی اور باقی وقت وہ دکان پہ اُونگھتے سرد راتوں۔۔ گرمیوں کی  گرم دوپہروں میں بغیر پنکھا چلائے۔۔۔ بل بہت آئے گا،جو بل میں نے دیناہے،میرے بچے کھا لیں گے۔۔۔چار چھ روپے کی بچت ہو جائے گی۔۔ پنکھے کے بنا بیٹھ سکتا ہوں۔۔۔میں نے خود دیکھا میرے باپ کی پھٹے ہوئے پاؤں ، کپڑے اور جوتوں کے تلوے چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ وہ ہم بیٹیوں کیلئے جتنا بھی کما کے دو دو کمیٹیاں ڈال کے لاکھوں کا جہیز بنا سکا۔۔۔
اس کے وجود کی تو مٹی بھی زمین کے اوپر ہی گھل گئی، قبر میں بعد میں اُترا،سائیکل پہ وہ منڈی سے سودے خریدنے جاتا۔ موٹرسائیکل کا پٹرول بچ جائے گا۔ بیٹےسکول  کالج جائیں گے۔۔۔بہنوں کو بھی سکول کالج سے لائیں گے۔۔۔ سائیکل۔۔۔ اس دور میں سائیکل۔۔۔
 جب انسان کو ہر تیز رفتاری چاہئے۔۔۔
 میں کیا کہوں،کہاں سَر پھوڑوں۔ میرے نصیب میں رب نے بہت اچھاساتھی دیا تھا۔ میری مَت ہی ماری گئی ، میں بھول ہی گئی کہ ماں کے کہنے میں آنے کی بجائے اپنا گھر دیکھوں ۔۔۔پتہ نہیں میرے باپ کے بہتے پسینے،لڑکھڑاتے وجود اور کتنی سرد راتوں کی ٹھنڈک۔۔۔کپڑے کی جاہ نماز میں بوڑھی ہڈیوں کے ساتھ ۔۔۔باپ نے کتنی نم آنکھوں اور دعاؤں سے میرے لئے وہ زندگی کا ساتھی مانگا تھا۔۔۔
 مائیں جنت جنت سب کرتے ،۔۔۔
باپ کی وفا کا ایک لقمہ ماں کی سب جنتوں پہ بھاری ہے۔۔۔
باپ ہی تو ہے، جو جنت کا دروازہ ہے۔۔۔
 یہ سب مجھے باپ کی توہین اور اُس سابقہ شوہر کے ان بے آواز آنسوؤں کا کینسر ہے۔۔۔
 میرے شوہر کوکسی گناہ کے بغیر میری ماں نے سولی چڑھادیا، جب تک وہ جیئے گا ، سسک سسک کے جئے گا اور میں اُس کیلئے کچھ بھی نہیں کر سکتی ، معافی بھی نہیں مانگ سکتی ، معافی مانگنے سے کونسا اُس کے دکھ درد دُھل جائیں گے۔۔۔ یا وہ ٹھیک ہو جائے گا؟
 اس ماں نے طلاق نہ دینے کے جرم میں اُسے وہ جادو کا زہر پلا دیا کہ وہ جب تک جئے گا، سسکتا زندہ لاش بن کے جئےگا۔۔۔میرا دل چاہتا ہے اس ماں کواس کے بیٹوں سمیت ختم کر دوں ، اس ماں نے میری عزت کواتنا بے مول کر ڈالا۔۔۔
میں کسی قابل نہ رہی، میری زندگی کا ساتھی آخر تک میرے سامنے ہاتھ جوڑتا رہا، اس کے پاس روپے پیسے کی کمی نہیں تھی،میرا مقدراُس   گھر داخل ہوا ۔۔مزید اس کے پاس ریل پیل ہو گئی۔
بس ۔۔۔میرا باپ مر گیا ۔میری ماں نے اپنے بیٹوں کی زندگی بنانے کیلئے مجھے بیچ ڈالا۔ میں اب چھوٹی کا گھر خود بناؤں گی اور دیکھتی ہوں کہ یہ ماں بیٹے کیسے مجھے روکتے ہیں ۔ ۔۔
میں اس طرح لُٹی ہوں جسے زمانے نے نہیں۔۔۔
سگی ماں اور بھائیوں نے لُوٹا۔۔۔
 بھائی ابھی تک اٹھائیس تیس کی عمروں کے ہونے آئے ۔۔۔
ابھی تک بچے بنا رکھے اِس سفاک ماں نے۔۔۔
اِس سفاک ماں نے ایک دفعہ بھی نہ سوچا ۔۔۔
کون مجھ "سیکنڈ ہینڈ"کو قبول کرے گا۔جویہ مجھے مال وزر کی ہوس پوری کرنے کیلئے طلاق دلوا کےلائی۔۔۔
اب چھوٹی بیٹی کیلئے بھی ایسا ہی تماشہ کرنے جا رہی ہے ، مگرمَیں ایسا نہیں ہونے دوں گی، جو کچھ میرے ساتھ ہونا تھا ہو چکا۔۔۔
 کینسر کا یہ عذاب رب کی طرف سے نہیں ، میرے اپنے کاموں کرموں کی سزا ہے جو میں نے اس ماں کے کہنے میں آکر حاصل کی۔" رو رو کے لڑکی کی مَت ماری گئی، وہ کسی طرح بھی سنبھلنے میں نہیں آ رہی تھی۔مطب میں پہلے سے  بیٹھے اور نئے آنے والے سبھی لوگ سوگوار اور افسردہ ہو گئے۔اس کے دکھ درد کے بے ربط تازیانے مجھے آج تک یاد ہیں لیکن کیا کیا جاسکتا ہے، لالچ وحرص اپنے انجام کو ضرور پہنچا کرتی ہے۔
یہ ایک دورے کی سی کیفیت تھی ، اگر لڑکی کو درمیان میں روکا جاتا تو شدتِ غم سے اُس کا ذہنی توازن ہمیشہ کیلئے بگڑ جاتا، ہم سب چپ چاپ اُس کی روتی صورت دیکھتے اور اُس کے دکھوں کو سنتے ہوئے دکھی ہوتے رہے۔
 بمشکل پانی پلایا اس کی ماں نے۔۔۔
ماں اور بھائی نےچپ کروانے اور  گھسیٹ کے لے جانے کی کوشش کی تو اِس کوشش میں بہت بری طرح اُس کے ہاتھوں پِٹ بھی گئے۔
میں نے منع بھی کیا تھا ۔ جب لڑکی سے تھپڑ کھائے ، تو ہی چپکے بیٹھے۔۔۔
مجال ہے جو ہمارے ہاں کے لوگ انجام دیکھے بنا کسی بات یا کام سے رُک جائیں، ایسی کوئی اِن میں "فنی خرابی "ہے۔
پتہ نہیں کب سے وہ اپنے اندر کی جنگ میں ٹوٹ بکھر رہی تھی؟ احساسِ جرم انسان کو جب دوراہے پہ لا کھڑا کرتا ہے تو انسان کے شعور اور لاشعور کے ٹکراؤ سے انسان کی ظاہری شخصیت بھی اندرونی کیفیات کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔
 بہرحال اسے بہت مشکل سے منت سماجت کرکے مطب سے گھر کا رستہ دکھایا۔ تین بعد دن وہ ایک اور لڑکی کے ساتھ آئی ۔ وہ اس کی چھوٹی بہن تھی ۔ وہ بھی اُسی کی طرح حسین اور خوبصورت ۔واقعی وہ اپنے باپ کی دعاؤں کا شاہکار تھیں، وہ بندہ یقیناََ اپنی بیٹیوں کیلئے دعائیں کرکے گیا ہو گا۔حلال ہی کِھلاتا ہوگا کہ لڑکیوں کے چہروں پہ نگاہ کسی بھی صورت ٹکتی نہیں تھی۔(یہ حُسن کی تعریف نہیں، بلکہ ایک باپ کی اپنی بیٹیوں کیلئے دعاؤں کی تعریف ہے)
 آتے ہی کہنے لگی ،"حکیم صاحب! میں نے کرائے کامکان لیا ہے۔ آپ کسی لڑکے کو میرے ساتھ بھیج دیں تاکہ میں سامان رکھوانے کیلئے ایک دو گھنٹے کی مدد حاصل کر سکوں ۔ "
"بی بی! تم نے گھر چھوڑ کے مناسب نہیں کیا۔آجکل کے حالات اچھے نہیں ہیں" میں نے اُسے نرمی سے سمجھایا
"نہیں، اب گھر چھوڑنا ہی بہتر تھا۔میری بہن کے رشتے میں بھی ماں اور تینوں بھائی حق مہر کی رکاوٹ ڈالے بیٹھے ہیں۔اس کا رشتہ بھی کسی وقت ٹوٹ جائے گا، میں پڑھی لکھی ہوں ، سائنس ٹیچر ہوں ۔ میں سب حالات کی سمجھ بوجھ رکھتی ہوں ۔میں نے اس کو جلدی سے بیاہنا ہے۔ایک مکان سکول کے قریب ہی دیکھا ہے ۔یہ بھی بچی نہیں ہے، یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔ میری زندگی کا کچھ پتہ نہیں، اس کی زندگی تو بچ جائے، یہی میری آخری کوشش ہے" میری بات کاٹ کے بولی
میں نے ایک کی بجائے دونوں لڑکوں کو ہی ان کے ساتھ بھیج دیا تاکہ سامان کی ترسیل سے جلدی فارغ ہو جائیں۔تقریباََ گھنٹے بھر میں دونوں بہنیں لڑکوں کے ساتھ ہی مطب پہ آگئیں۔
اب وہ اپنی بیماری کی بات کرنےآئی تھی،"حکیم صاحب، آپریشن کی صورت نہیں بن سکتی ، اس میں ڈاکٹرز کے مطابق آپریشن کے بعد بھی بیماری نے پھیلنا ہے،سینے کی طرف بیماری ابتدائی سٹیج میں رُخ کر چکی ہے۔ رپورٹس آپ بھی دیکھ چکے ہیں۔ مجھے بتائیں کس طرح اب باقی کی زندگی گزاروں ،کیا کوئی علاج حکمت میں ممکن ہےاور پھر کس حد تک مَیں زندگی میں واپس آ سکتی ہوں۔"وہ بولی
"بی بی !میں اپنی پوری کوشش کروں گا۔ شفاء اللہ نے دینی ہے۔ دوا کے ساتھ اللہ کی یاد کو اپنی زندگی میں ہر حال میں شامل کر لو۔صبح شام ذکراَذکاراحادیث سے پڑھو اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہ درودوسلام  ھدیہ کیا کرو۔ دوا کھانے سے پہلے اور بعد اول آخر دردو شریف لازمی پڑھو۔ باقی سب اللہ رب العزت پہ چھوڑ دو۔"میں نے اُسے بتایا اور اُس اللہ کی بندی نے اپنا آپ واقعی "تیاگ "سادیا۔ اُس کےہونٹوں پہ ہر دم دردوسلام رہا۔ تقریباََ ایک سال کے طویل اور سخت علاج کے بعد رو بہ صحت ہوئی۔جان بھی بچ گئی اور جسم واپس اپنی خوبصورتی میں آیا، چہرہ تو ایسا بن گیا،کسی کی نظر نہ ٹھہر پاتی۔
انسان جب اپنے آپ کو اللہ رب العزت کے حوالے کرتا ،اپنی خواہشات اور من مانیاں چھوڑ دیتا ہے توانسان زندگی کے اُن رَموز اور خوشیوں میں داخل ہو جاتا ہےجو قدرت تحفے میں دے دیتی ہے۔(یہاں یہ دونوں صورتیں نظر آرہی ہیں کہ ایک باپ دعا دیتا ہے کہ میری بیٹی کا نصیب اچھا ہو، تو اللہ نصیب کی بہتری میں بیٹی کو معصومیت بھراحُسن بھی عطا کردیتا ہے ۔اِسی لئے ہر شخص چاہے وہ مرد یا عورت ۔۔۔ سب میں یہت تقسیم موجود ہے،جب وہ لڑکی رب سے لَو لگا بیٹھی، تو قدرت نے اُسے مزید اپنی رحمتوں سے شفاء اور حُسن دونوں عطا فرمادیئے۔ بےشک یہ سب اللہ رب العزت کی عطا ہے۔)
چھوٹی بہن کے رشتے میں ماں اور بھائیوں کی لالچ کی وجہ سے دڑاریں پڑگئیں اور ایک اچھا رشتہ ہاتھ سے نکل گیا ۔ چھوٹی بہن کو اب وہ بی ایڈ کے بعد ایم ایڈ کروا رہی ہے، امیدہے جس حد تک وہ اللہ سے اپنی لَو لگا بیٹھی ہے، اس کی بہن کا گھربھی جلد بس جائے گا۔۔۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ خود کیا کرے گی؟
کیا وہ باقی کی زندگی اکیلی رہ پائے گی؟
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ رب العزت کی لگائی ہوئی تمام "حَد بندیاں"اپنی جگہ مکمل حقیقت رکھتی ہیں۔اگر فتویٰ کوئی بھی کسی مسلک کا پیروکار دے بھی دے گا،  تو کیا جادو کی غلاظت ختم ہو جائے گی؟
جہاں تک جادو کے بارے میں سنا ہے کہ جادو ایک دفعہ کسی گھر میں داخل ہو جائے تو زندگی بھر جان نہیں چھوٹتی۔
جادو کے بارے میں  ہمارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے "جادو کرنے کروانے، پڑھنے پڑھانے ، سیکھنے سکھانے والا ہم میں سے نہیں (اُمت میں سے نہیں)۔ سُنن اَبی داؤد
 (اور بھی بہت سی احادیث اس مزموم اور کفریہ جادو کی روک تھام کیلئے یقیناََ ہوں گی، میرے ذہن میں یہی پرانی پڑھی ہوئی حدیث کا مفہوم تھا ، سو لکھ دیا ۔)
اب آیئے دوسری طرف،جادو کے بعد ماں کی بیٹوں نے خوب درگت بنا کے کچھ عرصہ رکھا،بیٹیوں کے دروازے پہ جاتی رہی،بیٹیوں نے نہ رکھا۔ آخر ماں کو ایک دن برے حالوں میں میری دکان کا رستہ سوجھا۔ وہ آئی تو میں دیکھ کے حیران رہ گیاکہ چند مہینوں میں مائی سو سال کی مریض بن گئی۔۔۔الامان الحفیظ
آتے ہی مجھےکہنے لگی، "حکیم صاحب!بیٹیوں سے میری صلح کروا دو۔ میں بہت دفعہ ان کے دروازے پہ گئی۔ مجھے ساتھ رکھنے کو نہیں مانتیں ، بیٹوں نے مجھے بربادی کے سبھی راستے طے کروا دیئے،مجھ سے زبردستی انگوٹھے لگوا کے مکان بھی سب نے بانٹ لیا ہے۔ میری حالت اب ٹھیک نہیں، بیٹیاں اکیلی ہیں اور میں روز اِنہی سوچوں میں  جیتے جی مر رہی ہوں۔"شوگر کا عارضہ لاحق ہوا۔۔۔
ساتھ جادوگری کے بھیانک انجام بھی شروع ہو گئے تھے۔
بظاہر صحتمند۔۔۔ اندر سے کھوکھلی۔۔۔
 نہ اپنے مرد سے وفا کر سکی۔۔۔
نہ اولاد کے ساتھ سلیقے سے چل سکی۔۔۔
 لالچ وحرص نے ایک دن ختم ہونا ہی ہوتا ہے ۔ اب ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ شوگر کی وجہ سے بائیں پاؤں کی چار انگلیاں کاٹنی لازمی ہیں وگرنہ زہر  پھیلنے کا خدشہ ہے۔میں نے گُڈی کو فون کیا اور مطب پہ ہی بلا لیا، وہ آئی مگر اپنی ماں کے پاس بیٹھنے کی بجائے علیحدہ بیٹھ گئی۔ میرے پاس دو مریض تھے ، جن کو فارغ کیا اور دونوں ماں بیٹی کی طرف متوجہ ہوا ۔
 گُڈی کو سمجھایا "اب تیری ماں اپنے کئے کے  پچھتاوے میں جل رہی ہے، اس کی آخرت کواپنے دامن میں چھپا لو۔"
"میں نہیں لے جارہی ، یہ میری ماں نہیں ،یہ صرف اپنے بیٹوں کی ماں ہے۔" لڑکی بولی
"لڑکی ، لے جا اپنی ماں کو۔ چھوٹی کی شادی میں بھی اپنی ماں کو شریک کر۔ یوں مت کر کہ تم اللہ کو راضی کرو مگر ماں کو اپنے سے دور اور ناراض ہی رکھو۔ بیوقوفی یا لالچ  تم سب نے مل کر کی ۔۔۔ وہ تو ہو گئی۔۔۔
اس بوڑھی ماں کو اپنے دامن میں چھپاؤ۔۔۔
 اس کی غلطیوں کے باوجود اس کا حق ہے تم پر۔۔۔
لے جاؤ اپنی ماں کو۔ اب تیرا دروازہ ماں کیلئے بند نہ ہو۔۔۔ بس"
"آپ کا کام صرف تقریریں کرنا ہے کیا۔۔۔
 جس کو دیکھتے ہیں۔۔۔ شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔ 
میں نہیں لے جارہی اِسے۔ اس نے میرے ساتھ بہت ظلم کیا ہے۔اولاد کے حقوق صرف والدین کی خدمت نہیں ہیں ۔ویسے بھی یہ اپنے بیٹوں کے پاس رہے،  ذرا بڑےبیٹے کی شادی کرے، تھوڑا سابہو کا مزہ بھی چکھے، پھر میں لے جاؤں گی۔ماں نے میری شادی کر دی تھی، میں ماں کے فرائض سے مبراء ہو چکی ہوں ۔اب ماں کو رکھنے کے بیٹوں کے فرائض ہیں۔"
 خواتین کی اسی بات پہ مجھے اعتراض ہوتاہے کہ ان کے موقعہ بے موقعہ طعنے "پرس سےریزگاری" کی طرح گرنے لگتے ہیں۔
"رکشہ لا ، اور اپنی ماں کو اپنے گھرلے چل ۔اس کی خدمت کر۔ بیٹے وفا کریں نہ کریں ، ماؤں کی بیٹیوں سے کبھی بھی اُمید نہیں ٹوٹا کرتی۔۔۔
 مزید مجھے تیری کوئی بات نہیں سننی۔اس کاعلاج کرواؤ۔ 
اس کو سنبھالو۔ یہ قیامت کے دن بول پڑی ،تیرے ساتھ اس سے جو زیادتی ہو گئی، وہ شاید کسی گنتی میں نہ آئے۔
 البتہ تم پکڑی جاسکتی ہو۔ جس رب کی طرف تم نے اپنی زندگی کی معافیوں کیلئےرجوع کیا ہے ، 
اس کے حکم کا بھی پاس کر۔ ویسے بھی ماں بیٹیوں کی روزانہ کی بنیاد پہ لڑائیاںاور صلح  ہوتی ہیں۔
 اس لئے ان کوخود ہی ایک دوسرے کو  منانا بھی چاہیئے ۔ دوسروں کا دخل مناسب نہیں ۔چل شاباش۔ 
باقی گِلے شکوے گھر جاکےکرو۔ بیٹوں نے مکان اس سے اپنے نام کروا لیا ہے،
 ابھی وہ نئی مصیبت بھی تم لوگوں کیلئے کھڑی ہونے والی ہے، اس لئے ماں کو لے جاؤ تاکہ لڑکوں کو تم سب مل کے سبق سکھا سکو۔۔۔
ماں سے بے شک جتنے بھی گلے شکوے کرنے ہیں ضرور کرو۔  ماں کو گھر کی دہلیز سے مت ہٹانا۔
غلطیاں تم سب نے مل کر کی ہیں ۔سود بھی ذلالت تھی جو گھر میں داخل کیا ، اور جادوبھی کفر تھا جو تم لوگوں نےایک ساتھ مل کر کیا اور کروایا ہے ۔اس لئے یہ سب کچھ تم سب کوبھگتنا ہو گا۔"
"اچھا، اب رہنے کو جگہ نہیں۔۔۔اس لئے ۔۔۔
 مکان بیٹوں کو کس خوشی میں دے آئی ہو اماں" وہ پھر اپنی تپش کو شروع کرنے لگی۔
 میں نے اُسے ٹوکا،" تیری ماں سے سن کے اس لئے پہلے سے تجھے بتایا ہے کہ تم گھر لے جا کر اِسے باہر مت پھینک دینا۔
 تمہارے بھائیوں نے  یاتمہاری ماں پہ ہاتھ اُٹھایا ہوگا ۔۔۔
 یا گالیاں دی ہوں گی۔۔۔ جادو کی غلاظت تم لوگوں کے گھر رہنی ہی رہنی ہے، چاہےجہاں مرضی رہو اور  جتنے مرضی جتن کرلو۔ 
آخر ان چیزوں  نے جادو کرنے اور کروانے والے کی قیامت میں گواہیاں دینی ہیں۔۔۔
 اس لئے وہ مخلوقات تم لوگوں میں نفرت پھوٹ ، نقصان اور ذلالت لاتے رہیں گے۔ ۔۔
میں جادو کے بارے میں سنے سنائے سے زیادہ کچھ نہیں جانتا۔۔۔
یہ ضرور جانتا ہوں کہ کفر اور شیطان کےکسی کام میں کوئی خیر کبھی نہیں ہو سکتی۔۔۔
اس لئے اب تم اپنا بھاشن بند کرو۔ مائی کی حالت ایسی نہیں ہے کہ یہ تیری تُرش روی برداشت کر سکے۔۔۔
نجانےکتنے جسم کے حصے کٹوائے گی۔تم جا کے اس کے آپریشن کی تیاری کرو۔۔۔
 اسے کچھ مت کہو۔، یہ اب ختم ہو چکی۔ یہ دنیا میں وہ کچھ دیکھ چکی۔۔۔ 
 عام گھروں میں رہنے والے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔
سورۃ البقرہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور حکم ہے وہ پڑھو۔" 
میری سخت ڈانٹ ڈپٹ نے اُسے مزید بولنے نہ دیا ۔
اُس سے ماں سے شفقت کا وعدہ لے کر جانے دیا۔
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ " ایک ایسا وقت آئے گا ، جادو عام ہو گا، زنا عام ہوگا۔"
پہلاسوال:
 یہ ایک گھر کی کہانی نہیں ہے۔ جو لوگ بچے ہوئے ہیں اس کفر سے جسے جادو کہتے ہیں وہ بچے ہوئے ہیں۔
 جو کوئی ایک دفعہ اس کام میں پڑجائے اور دوسروں کو اذیتیں دیتا ہے۔
 وہ خود بھی کب سکون سے رہ پاتا ہے۔یہ ہمارے معاشرے کے ہر تیسرے گھر کی کہانی ہے۔
جس میں جادوگری کے فلسفے شروع ہو چکےہیں۔
دوسرا سوال :
ایک دن کمزور ہونا ہے اوربوڑھا بھی۔ سوال یہی کل بھی تھا ، آج بھی ہےکہ لالچ باقی رہ جاتی ہے، 
لالچی انسان کو اپنی لالچ ہی مار دیتی اور اتنا برا انجام دیتی ہے کہ واپسی کے رستے بند ہو جاتے ہیں۔
 کچھ لوگوں کو وقتی طورپہ دس بیس سال کی چھوٹ مل جائے ، وہ مزید لالچ اور ہوس میں پڑ جاتے ہیں،جتنی چھوٹ ملی ہوتی ہے۔
انجام کی باری آتی ہے،تودُگنا انجام برا ہوتا ہے۔ہم  مزید منافقت کرتے ہیں ۔یعنی یہ کہتے ہیں کہ"اللہ کی مرضی ایسے ہی تھی"۔۔۔
 اپنے کئے کا سب الزام ہم اللہ کی مرضی پہ ڈال دیتے ہیں(نعوذباللہ من ذالک)۔۔۔
اللہ رب العزت نے سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر30 میں بیان فرما دیا ہے کہ "
ترجمہ: "اور تم پر جو مصیبت آتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے آتی ہے 
اور وہ (اللہ ) بہت سے گناہ معاف کر دیتا ہے۔"(سورۃ الشوریٰ آیت 30)

یہ آیت مبارکہ جہاں انسان کےکئے ہوئےافعال اور مصیبتوں کا ذکر کر رہی ہے،
 وہیں آیت کا آخری حصہ یہ بھی ظاہر کر رہا ہے کہ اللہ رب العزت بہت سے ہمارے گناہ معاف بھی کر دیتا ہے
 یعنی اگر دنیاوی زندگی میں اللہ پاک ہمارےبہت سے گناہ معاف نہ فرمائے
 تو ہم اپنے کئے ہوئے اور اپنے لئے کھودی ہوئی بہت سی کھائیوں ، گڑھوں اور مصیبتوں سے کسی بھی طور چھٹکارا نہ حاصل کر پائیں۔
اللہ رب العزت ہمیں ہدایت یافتہ اور دینِ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
نوٹ: یہ پوسٹ سورۃ الشوریٰ کی آیت 30 کے مفہموم کو ظاہر کر رہی ہے۔
اور حدیث مبارکہ کے مفہوم کے مطابق بھی ہے،جو اوپر بیان کر دی گئی ہے۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ " قیامت کے نزدیک جادو عام ہو گا اور زنا عام ہو گا۔"
تحریر: Safeer E Haq
پیشکش:          Dunya Plus 
٭٭٭
٭٭٭ مزید پڑھیئے:

No comments:

Post a Comment