٭٭٭ ساڈیاں
ترقیاں تے مشوم بہانے ٭٭٭
زیر نظر کچھ لنکس ہیں جن میں ہمارے ہاں بھی "نئے سال
مبارک یعنی ہیپی برتھ ڈے" اوہو ، نہیں، "ہیپی نیو ائیر" کے سلسلے میں خوب تیاریاں کی گئی ہیں اور ابھی
آج رات بارہ بج کر ایک منٹ پہ پوری شدومد سے نئے سال کے استقبال کیلئے دم پخت قسم
کی "شراب سے لتھڑی ہوئی تھوتھنیاں تھرکتی جوانیوں کی زلفوں کے سائے تلے"
اپنے نئے سال کے لئے شیطان الخبیث کے ساتھ نئے ترقی یافتہ دور کی جدتوں سے سرفراز
ہوتے ہوئے "نئے سال " میں قدم رنجہ فرمائیں گے۔
ہر طرف غلاظت سے بھرپور شراب کی بوتل جو سالوں سے بند جسے
پرانی شراب کہا بولا جاتا ہے،کی بوتلوں کے
ڈھکن کھلیں گے اور "ہوس کی واسنا" کا ہوس ناک کھیل جاری ہو جائے گا. کہیں سے آج کوئی آواز نہیں اُٹھ رہی
کہ کوئی" مرد طوائف ہوتا ہےیا عورت
۔۔۔!!"
آج ہمارے وطن میں بھی عوام کی ایک کثیر تعداد فرقہ بندی سے
پاک پرسکون ماحول میں "شیطانِ اعظم" کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کسی آنے
والے وقت میں "خانِ اعظم(چنگیز خان کا لقب)"کے آنے کا انتظام و انتظار
کر رہی ہے۔۔۔!!
آج پورے سوشل میڈیا پہ "خواتین کے حقوق" پہ ہونے
والی لفاظی پہ مکمل سکوت طاری ہے۔
آج طاغوتی طاقتوں کی خوشی کی خاطر وہ تمام خواتین جو وطنِ
عزیز کے طول وعرض سے دستیاب کی گئی ہیں ۔آج ایک پوسٹ کیا چند لائنیں بھی ان مذموم
معاملات کیلئے نہیں لکھی بولی گئیں۔
آج کسی بھی جگہ کسی بھی پوسٹ میں "طوائف کون۔ مرد یا
عورت" کی آواز نہیں اُٹھ رہی۔
آج کہیں بھی نہیں بولا جا رہا کہ عورت نہیں ، اصل طوائف مرد
ہوتا ہےجو عورت کو اس کام پہ مجبور کرتا ہے حالانکہ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کسی
بھی مرد کی یہ جرات نہیں کہ کسی کی بہن بیٹی کو اس کے گھر کی دہلیز سے ہاتھ پکڑ کے
لا سکے، بلکہ یہ خواتین کا ہی خواتین سے لڑائی، سیاست اور گھروں میں اک دوسرے سے
لڑائی کے بعد حاصل شدہ نتائج ہوتے ہیں کہ ایک لڑکی گھر چھوڑ کے زمانے کی ٹھوکروں
میں آنے کو "اپنی آزادی "سمجھتی ہے۔
کیا آج صرف جسموں کی قیمتیں لگیں گی ؟
جب جسم دستیاب نہ ہوں تو کیا کوئی قیمت لگا سکتا ہے؟
آج سوشل میڈیا پہ نرم گدیلوں سے، کبھی چلتے پھرتے ، کبھی
کرسی صوفے پہ بیٹھتے اُٹھتے ، کہیں بازار میں آتے جاتے، کہیں کھانا کھاتے ہوئے
کھانے سے لتھڑے ہوئے ہاتھ کوہولے سے شرٹ کے کونے سے پونچھتے ہوئے ۔۔۔ کہیں سے بھی
کوئی آواز نہیں آرہی کہ آج کی رات "عورت آزادی کے نام پہ ہوس کے کھیل میں
کیوں شرکت کر رہی ہے۔۔۔؟"
کیا آج بھی یہ کہنا غلط ہو گاکہ عورت نے اپنی جیسی عورت سے
خود ہی دشمنی رکھی مرد پہ الزام دے کر اپنے آپ کو "شانت" کر لیتی ہے۔(
مرد کو سپورٹ نہیں کر رہا، بلکہ دونوں ہی اپنی جگہ مجرم ہوتے ہیں، چاہے مرد جرم
کرے یا عورت۔۔۔ جرم کی بات کی جا رہی ہے)
وہ کونسی عورت جو بازاروں کی زینت بنتی آج مول لگا رہی ہے،
کیا وہ گھروں میں بیٹھی خواتین سے جنس میں علیحدہ ہیں جو اپنا آپ سرِبازار لائی
ہیں اور کل کو ان کی گھروں میں بیٹھی "ہم جنس بہنیں" ہی سوشل میڈیا اور
الیکٹرانک میڈیا پہ فلک شگاف نعرے اور گالیاں اور تہمتوں کے تیر برسائیں گی کہ
عورت کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، لوگ شریف عورت کو چلنے پھرنے بھی نہیں دیتے، اب عورت
کی کوئی عزت نہیں رہ گئی۔۔۔آج ان سب خواتین کی منافقت بھری خاموشی کیوں اور کیا
کہہ بول رہی ہے؟
کیا وہ اکا دکا
واقعات کے انتظار میں ہیں کہ کچھ ایسا ہو اور ہم پھر "سوشل میڈیا کے بازار کو
"گھر کا صحن" سمجھتے ہوئے مردوں کو گالم گلوچ کر سکیں۔جس طرح ایک روش سی
چل پڑی ہے کہ "مرد تو ہوتے ہی سارے کتے ہیں" کا نعرہ بلند کیا جائے ۔سرِ
بازار لگنے والی منڈی اور سجائی جانے والی ہوس کی کالی ماتاآج رنگین کپڑوں میں
ملبوس ہے اوراس شام سوشل میڈیا مکمل خاموش ہے۔
یوں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔یوں جیسے کوئی جانتا ہی نہیں۔۔۔یوں
جیسے کسی کو کوئی غرض ہی نہیں۔۔۔
کیا ہم بغداد کی گلیوں کی طرح اپنے شہروں، گلیوں اوربازاروں
میں "خون کی بہتی ندیاں"سجانے کا انتظام کر رہے ہیں؟؟؟
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بغداد کی گلیوں میں چنگیز خان
نے جو خون بہایا تھا ، وہ سب کا سب کسی زنا و گناہ کے ساتھ ساتھ قرآنی تعلیمات سے
مسلمان قوم کے ہٹ جانے سے بہا تھا۔ ہر طرف طوائف الملوکی فرقہ بندی اور تیری مسجد
، میری مسجد کے نام پہ پھیلی تھی۔
اب ہم تاریخ کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش میں ہیں۔ہم
نیروکی مدہوش شراب کی بوتل میں خود کو ڈبونے کی ناکام کوشش میں مصروف نیرو سے بھی
زیادہ تلخ بانسری اپنی قوم سے بجوانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
آج نیا سال مبارک اور ہلڑ کے ایک طوفانِ بدتمیزی سے سن 2017
کا سواگت کیا جائے گا۔
رستوں گلیوں بازاروں میں موٹرسائیکلوں کے سلنسر نکالے
"شِی جوانانِ قوم" زوں زوں اور گھوں گھوں کرتے پھر رہے ہیں۔ کان پڑی
آواز سُجھائی نہیں دیتی ۔
شتر بے مہار کی طرح ہر طرف ہوس کی ہاہاکار کا مجرم صرف مرد
ہے، جبکہ خواتین کی ایک کثیر تعداد اُن سب ہوس کاروں کو میٹھے میٹھے بھاشن
دینے کیلئےایسی تمام محافل میں شرکت
فرمائیں گی۔؟
کل کی دوپہر کو سادہ سے الفاظ میں کہا بولا جائے گا کہ
"یہ ایلیٹ کلاس والوں کے تماشے تھے۔"
آج بہت سے گھروں میں
بھی خاموشی سے "زنا بلرضا" کے مزموم معاملات پورے کر لئے جائیں گے
اور
پھر باہر کی دنیا میں سکون سے کہا بولا جائے گاکہ
"زنا کبیرہ گناہ ہے، زنا عذابِ الٰہی کو دعوت دینےکے
مترادف ہے۔۔۔!!"
تلخ حقائق:
٭ اللہ رب العزت نے کسی شرابی زانی سے کوئی اسلامی جنگ نہیں
لڑاوائی۔
٭ اللہ رب العزت نے کسی زانی شرابی کے روزے قبول نہیں
فرمائے۔
٭ اللہ رب العزت نے کسی سودخود، زانی اور شرابی کے صدقات قبول نہیں فرمائے۔
٭ اللہ رب العزت نے کبھی بھی مسلمانوں کو دوسری قوموں کے
انداز اپنانے پہ معاف نہیں کیا۔
٭ اللہ رب العزت نے حسد، بغض اور چوروں کو کبھی دین اسلام
کی سرفرازی کیلئے مثال نہیں بنایا۔
٭ اللہ رب العزت نے کبھی کسی زانی کے خون اور زانیہ کے بطن
سے ولی پیدا نہیں فرمائے۔
یہ سب حقائق احادیث صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہیں، ہم
مانیں یا نہ مانیں، مگر ہو وہی کچھ رہا ہے جو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما
گئے ۔ہم مسلمان وہ واحد قوم ہیں جنہیں سب کچھ اللہ رب العزت نے آقا کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے ذریعے پہلے ہی بتا دیا۔
کسی بچے کو آپ سب کچھ پہلے بتا دیں اور وہ پھر بھی غلط کام
کرکے واپس آئے تو آپ کی برداشت کیا کہے گی اور آپ کیا طریقہ کار اختیار کریں گے؟
اسی طرح اللہ رب العزت کابھی قرآن کریم میں فرمان کا
مفہوم ہے کہ " جو جان بوجھ کے گناہ
کرتا ہے، وہ قابلِ معافی نہیں۔"
اب سوچیں ، پھر سے سوچیں کہ
کیا ہماری قوم "جنگِ ہند" میں حصہ لے سکے گی ؟
یا ہم پہ ہم سے اچھے اور باکردار لوگوں کو پیدا کرکے اور
چھانٹی کرکے "جنگِ ہند" کا حصہ بنایا جائے گا اور فتح سے سرفراز کیا
جائے گا۔۔۔!!
وقت ملے تو سوچیئے گا ضرور۔۔۔ ہلکی سی ٹھنڈی سانس لے
کر"اللہ معاف فرمائے" مت کہہ کے اپنے آپ کو دھوکے میں رکھیئے گا، تھوڑا
سوچ لیجئے گا۔۔۔ والسلام
ان لنکس میں آپ کو تفصیلات ملیں گی کہ کیسے فول پروف انتظامات کئے گئے ہیں؟؟؟
لنک نمبر١:
http://epaper.dailykhabrain.com.pk/popup.php?newssrc=issues/2016-12-27/21789/dance.jpg
لنک نمبر ٢: اس لنک میں پورا اخبار ملاحظہ فرمائیں۔
http://epaper.dailykhabrain.com.pk/epaper?station_id=10&date=2016-12-27
٭٭٭
مزید پڑھیئے:
٭٭٭ قاتل بہن
٭٭٭ ظالم ڈکٹیٹر
No comments:
Post a Comment