Tuesday, February 14, 2017

Lust of Love...!!

Lust of Love





٭٭٭ہوس کا نام محبت نہیں٭٭٭
دنیا میں بھیجنے والے نے ہر سانس کے ساتھ "اپنی حمدوثناء" کا حکم صادر فرمایا ہے، جس میں ہم ناکامیاب ہیں، بہت سے وہ کام کرتے ہیں جو دوسروں کی دیکھا دیکھی ہیں، ایسے کام حکم کا درجہ نہیں رکھتے۔
سبھی کچھ مل رہا ہے۔ جن کی عزت وتوقیر کرنی ہے، ان کا ہم نام لینا بھی گوارہ نہیں کرتے جبکہ غیرمسلم کا ہر کام وعمل ہمیں پسند آجاتا ہے، ہم اپنے اسلاف کے ناموں پہ انگلی اُٹھانے سے شرم نہیں کرتے مگر کسی بھی غیر مسلم کے بدترین اصولوں کو اپنی ذات پہ لاگو کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔
آج یہ حالت ہے کہ "ہوس کے نام پہ کھیلی جانے والی محبت کی ہولی" کو ہم اپنی نسلوں میں پروان چڑھانے کی کوشش میں ہیں۔ اسی سوشل میڈیا میں ایک نومولود بچہ بھی ایک کتامنہ میں دبائے بھاگتا ہوا اس قوم نےویڈیو میں  دیکھا، مگر دل ہے کہ ڈرتا ہی نہیں۔۔۔
قوم سدوم کے تمام گناہ ہم کرنے کے باوجود روز ڈِکار مار کے جس مالکِ وحدہٗ لاشریک کا دیا ہوا کھاتے ہیں، اس کی ایک بھی بات ہم اپنے آپ پہ لاگو کرنے کو رضامند نہیں ہیں، آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟
یہی کہ ہم خوب رج کے کھائیں پئیں، ڈکار ماریں، ون سوّنا پہنیں اوڑھیں، گاڑیوں کے جھولے لیں اور نکاح کے علاوہ ہمیں جنسیت کے نام پہ فل فل کھلواڑ کرنے کے کھلے مواقع دیئے جائیں، بس
مالکِ وحدہٗ لاشریک اللہ رب العزت نے ایک مرتبہ بتا دیا ہے کہ"

یقینا ً جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش (و بے حیائی) پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں۔

#سورۃ_النورآیت19
رب ذوالجلال والاکرام کی یہ سنت رہی ہے اور رہے گی کہ بے جاء دلائل کی جگہ ایک ہی دفعہ "دوحرفی بات" بتا کے بنی نو انسان کو سمجھا دیا ہے۔۔۔
اب یہ انسان پہ ہے کہ وہ مالک کی بات پہ "نعم(ہاں)" کہہ کے متفق ہو جاتا ہے یا بے وجہ کے لایعنی دلائل دیتے ہوئے اپنے لئے چور راستے نکالتا ہے۔۔۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس محبت کے دن نے کسی کا کیابگاڑا ہے اور کیوں نہ منایا جائے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ہاں میڈیا کی یلغار سے کتنی بربادی ہو چکی ہے اور مزید کتنی ہو رہی ہے؟
نوٹ:- ہم سے سبھی گناہ و ثواب ہوتے ہیں اور جتنا ہم سے ممکن ہے بچنے کی سعی کرتے ہیں یابچنے کی سعی کر سکتے ہیں، مگر اغیار کی لغویات کواپنی روح ووجود پہ سوار کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔۔۔؟؟؟
ایک خاتون دیارِغیر سے وطن واپس کچھ عرصہ بعد آئیں اور کچھ دن چھٹیاں گزارنے کے بعدیوں رقم طراز ہیں۔ ذرا آپ بھی دل پہ ہاتھ رکھ کے پڑھیئے :-
ہماری ثقافت
کہتے اور آزمایا گیا ہے کہ جس چیز کو جتنا احتیاط سے رکھا جائے وہ جلد ٹوٹ جاتی ہے
ہماری ثقافت
ہماری روایات
ہمارا کلچر
ایسی ہی چیزیں جن کو ہم جتنا زندہ رکھنا چاہتے ہیں یہ اتنی ہی تیزی سے ہاتھوں سے پھسلتی جارہی ہے
مغربی ممالک میں ہم جیسے بچارے دوثقافتوں میں پھنسے،
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے،
کی تصویر بنے پھرتے ہیں
انسان جس معاشرے میں رہتا ہے نہ چاہتے ہوئے بھی بہت ساری چیزیں دوسروں کی اپنانی پڑتی ہیں
مگر بہت ساری باتیں تہذیب میں رہتے ہوئے اپنانے سے گلٹی فیل ہوتا ہے
جس میں خواتین کی ڈریسنگ سب سے اہم چیز ہوتی ہے
مگر حیرت و شرمندگی تب ہوتی ہے جب آپ پاکستان جاتے ہیں
اپنے کلچر
اپنی تہذیب
اپنی ثقافت
جسکا سبق آپ روز خود سے دہراتے ہیں اپنے بچوں کو طوطے کی رٹاتے ہیں اک پل میں اسکا الٹا رخ دیکھتے ہیں
ایسے لگتا ہے کہ گویا یہ لوگ یورپ کے باسی ہیں اور آپ کسی پنڈ سے آئے ہیں
اور اپنا آپ وہاں گاوں سے بڑے شہر میں پہلی بار ائے انسان جیسا لگتا ہے
جو ہونقوں کی طرح سب دیکھ رہا ہے
روز نئے فیشن ، مغربی کلچر کے چلتے پھرتےنمونے
ایسے میں اپنا آپ ریٹائرڈ سا لگتا ہے
ہماری ثقافت پر میڈیا سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے پہلے انڈین کلچر کا رونا رویا جاتا تھا اب ترکش نمایاں ہے اگر یہ میڈیا کی  سازش ہے تو اسے روکنا کس کا کام ہے؟؟؟
٭٭٭

No comments:

Post a Comment