Saturday, January 16, 2016

SaaS aur Bahu : A True Story



اللہ عورتوں کو کچھ نہیں کہتا

"بیٹی ! روٹی ملے گی ۔  تین دن سے بھوکی ہوں۔ مجھے نظر بھی نہیں آتا ۔ اور بھوک سے تندور تک نہیں جا سکتی ۔ پوتے لا کے نہیں دیتے اور میرے پاس پیسے بھی کوئی نہیں ہیں ۔" اتنا کہتے ہوئے اُس نے اپنی نیم وا آنکھیں موند لیں دروازے چوکھٹ کے سہارے ۔ شاید وہ رو رو کے پہلے ہی اپنے سب آنسو بے نور ہوتی آنکھوں سے بہا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 اور میں ٹکٹکی باندھے اُس نحیف سی بڑھیا کو دیکھنے لگی ، مگر یہ صرف چند ساعت ہوا ، اور وہ نیم بیہوش  سی اک دم دروازے سے جھول گئی ۔ میرا بھی سکتہ ٹوٹا اور میں نے جیسے تیسے کرکے اُس بڑھیا کو اندر گھسیٹ لیا اور بچوں کو زور سے آواز دے ڈالی ۔ مگر میری آواز بچوں تک تو پہنچی مگر وہ نحیف سی روح وہیں ڈھیر ہو گئی ۔۔۔۔۔۔
وہ میری سامنے والی ہمسائی تھی ۔ کبھی بہت خوشحال تھی ۔ مگر  جب اُس کا میاں فوت ہوا تو وہ حرماں نصیب بہو کے جوتوں میں آ گئی ۔ بہو بھی وہ ، جو "کِتھوں لَتھی ، تے کِتھے چڑھی" کی مدراک تھی ۔ اُس کا نام خانم تھا اور اُسے پانچ وقت کی نماز اور قرآن پاک سے فرصت نہیں تھی ۔مگر چھوٹے بیٹے کے پیار میں برباد ہو گئی ۔ میں نے خانم کو بچوں کی مدد سے دروازے سے اندر صحن تک لائی اور چارپائی پہ ڈال کے پانی کے چھینٹے مارے جس سے وہ واپس ہوش میں آئی۔ میں نے بیٹے سے ساتھ ساتھ کہا کہ لیموں پانی بناؤ ۔۔۔۔ جلدی  سے ۔ کچھ دل میں ڈر بھی تھا کہ مائی خانم کو ہمارے گھر میں کچھ نہ ہو جائے۔مگر وہ ڈر میرے میاں کے آنے سے ختم ہو گیا ۔ وہ بھی اچانک دکان سے گھر آ گئےاور آتے ہی سب کچھ سنبھال لیا۔ ہوش میں آتے ہی خانم کو لیموں پانی پلایا اور میں  جلدی سے کھانے کا انتظام کرنے لگی ۔ میرے میاں چونکہ حکمت سے بھی شغف رکھتے ہیں ، اس لئے انہوں نے خانم کو لیموں پانی کے ساتھ ہی کوئ دوا بھی دی جس سے خانم کی حالت مزید سنبھلی۔ میرے میاں نے فوراََ مائی خانم کے چھوٹے بیٹے کو فون ملایا اور اُسے خانم کی حالت بتا تے ہوئے فوراََ پہنچنے کو کہا ۔خیر۔۔۔۔ مائی خانم کو ہم ڈرائنگ روم میں لے آئے ۔آدھ پون گھنٹے میں مائی کا چھوٹا بیٹا بھی پہنچ گیا ۔ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو گھر سے نکال باہر کیا تھا ۔ پیسے اپنے مکان میں لگوائے اور مکان بھی اپنے نام کروا لیا ۔۔۔۔۔
ماں کو بڑے بیٹے نے اپنے پاس ہی رکھا اور ماں کو بیوی بچوں کے پاس چھوڑ کے دبئی چلا گیا ۔ بڑے بیٹے میں کوئی اچھے گُن وصف نہ تھے ۔ مگر ماں چھت  او رمزید کوئی انتظام نہ ہونے پہ بڑے بیٹے کے ساتھ رہنے پہ مجبور تھی ۔ آج جب بہو میکے گئی تو مائی کو اندر بند کرکے گئی اور مین دروازے کا لاک لگا گئی ۔ جو کہ مائی کی قسمت نےساتھ دیا اور شوہر کی پرانی چیزوں میں سے اُسے باہری گیٹ کی چابی مل گئی ۔ شاید ابھی زندگی باقی تھی ۔۔۔۔۔ اور مائی گرتی پڑتی ہمارے دروازے تک پہنچ گئی ۔ چھوٹا بیٹا دن بھر مزدوری کرکے کبھی ریلوے اسٹیشن پہ جا سوتا تو کبھی کسی فٹ پاتھ پہ۔۔۔۔۔ اور مائی بہو کے جوتے کھانے کیلئے ایسی دوزخ میں جی رہی تھی کہ کسی طور چھٹکارا نہ پا سکتی تھی ۔ مجھے یاد ہے کہ چندسال  پہلے جب دونوں بھائیوں کی لڑائی ہوئی تھی تو بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو ایک جوڑا کپڑوں میں مار مار کے گھر سے نکال دیا تھا۔ مگر اُس واقعے سے چند دن پہلے دیور بھابھی میں بھی تُو  تُکار ہوئی تھی ۔۔۔۔  اور بھابھی نے دعویٰ کیا تھا کہ " تم اگر اپنی زندگی چاہتے ہو تو خود ہی گھر چھوڑ کے چلے جاؤ ، ورنہ وہ حال بنا کے یہاں سے نکالوں گی کہ زمانہ دیکھے گا۔۔۔۔۔"
 اور پھر واقعی زمانے نے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔ مگر زمانہ کچھ نہیں کہہ سکتا تھا ۔۔۔۔۔ کیونکہ عورت اچھی ہو تو پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور کردار اور سیرت سے اپنے متعلقین کی زندگی سنوار دیتی ہے ، مگر عورت اگر برا کرنے پہ آ جائے تو پھر اِس  عورت ذات کو اللہ ہی روکے تو روکے ورنہ یہ پھر سگے باپ کی بھی نہیں مانتی ۔۔۔۔۔اور ایسی عورت سے ہر کوئی دس قدم دور ہی رہنا پسند کرتا ہے ۔۔۔۔۔
خیر ! محترمہ نے اپنی ساس کو خوب نکیل ڈال کے رکھا ہوا تھا ۔اور محترمہ شرافت میں اتنی مشہورکہ گھر سے اک قدم بھی اکیلے باہر نہیں نکالنا اور گھر بیٹھے تمام کاموں کی ایسی ماہر ۔۔۔۔  کہ ایسا کوئی انٹیلی جنس والا بھی ماہر نہ ہوتا ہو گا۔۔۔۔ کیونکہ محترمہ نے 3 پھوپھی زاد بیٹیاں عرف کزنز رکھی ہوئی تھیں جو سارے زمانے کی خرانٹ اور چلتا پرزہ تھیں ۔۔۔۔ ایسا ایسا جادوگر ، اور ایسے ایسے ماہر علمی لوگوں کو جانتیں اور کام کرواتی تھیں کہ اگلے بندے کے گھر میں وہ فساد اور دنگا پڑتا تھاکہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب کوئی مرا کہ اب کوئی مرا ۔۔۔۔
اور محترمہ نے اپنے سسر کو اسی گھٹیا ترین نجس کام یعنی جادو سے رگڑوا کے قبر میں دفن کیا تھا اور بین ایسے ڈالے تھے سسر کی موت پہ کہ جیسے سگا باپ مر گیا ہو ۔۔۔ حالانکہ جب تک سسر جیتا رہا ، تب تک وہ دروازے کی چوکھٹ سے 20 دن سے زیادہ گھر کے اندر نہ رہ پایا۔۔۔۔ 20 دن بھی وہ جب بیٹا پردیس سے گھر واپس آیا کرتا تھا۔۔۔ اور پھر دونوں بھائیوں کو لڑوا کے چھوٹے کا پیسہ ہڑپ کرکے اپنے مکان کی خریداری میں ڈالا ۔۔۔ اور جوتے مار کے گھر سے نکال دیا ۔۔۔ باباجی   عرف جادوگر جس کا چاہے آپ عقلی خانہ خالی کروا کے اپنے مطلب کے مطابق مجبور کرکے کام کروا سکتے ہیں کیونکہ فی زمانہ لوگ یہ کہہ کر جادوگروں اور علم والوں کے پاس جاتے ہیں کہ " کی کریئے جی ، دشمن کو چھڈ تے نئیں دئیی دا ۔۔۔ دشمن کو سبق سِکھانا ضروری ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔"
تین دن مائی کو روٹی نہیں دی ۔ 3 پوتے اور ایک عدد پوتی ٹھڈے مار تے آتے جاتے ۔۔۔۔
بہو نےکمرےمیں بند کرکے بڑھیا کو خوب  " تونی (  کُٹ) " لگائی اور آخرکار گھر میں بند کرکے خود  بہو رانی بچوں کے ساتھ میکے سدھار لی ۔۔۔۔ تاکہ جب وہ واپس آئے تو مائی "پرلوک" سدھار چکی ہو ۔۔۔۔۔
مگر بہو رانی کا قدرت نے یہ وار خالی کر دیا کہ مائی کو صحیح نہ نظر آنے کے باوجود دماغ سے راستہ بتایا اور وہ بابے کی پرانی چیزوں میں ہاتھ مارتی مارتی  گیٹ کی چابی تک پہنچ گئی ۔۔۔۔ زندگی ابھی باقی تھی ۔۔۔ نا
فریج  تالا۔۔۔ گیٹ تالا ۔۔ ۔ او راندر اکیلی مائی خانم ۔۔۔۔۔ کسی طرح گیٹ کھول کے 30 فٹ کا فاصلہ طے کرکے ہمارے دروازے پہ چلی آئی ۔۔۔۔  مائی خانم ابھی بھی اس خام خیالی میں تھی کہ بڑا بیٹا آئے گا تو میں اُسے بتاؤں گی تو وہ اپنی بیوی کی خبر لے گا ۔۔۔
 جبکہ بڑا بیٹا ۔۔۔ پہلے ہی سے جادو سے بیوی کا مکمل محکوم ہے ۔۔۔
اک دفعہ میرے میاں نے اس خاتون عرف بہو رانی سے کہا تھاکہ " بھابھی ! ہوش کر ۔۔۔  تجھے بھی بوڑھا ہونا ہے ۔۔۔۔ اور جو تُو کر رہی ہے ۔۔۔ یہ بھگتنا بھی پڑے گا۔۔۔"
 تو محترمہ کا جواب تھا ۔۔۔۔
" کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔  اللہ عورتوں کو کچھ نہیں کہتا ۔۔۔۔۔او ر ویسے بھی میں نے اپنا گھر بسانا ہے ۔۔۔ مجھے خوب پتہ ہے کہ کیسے اپنا گھر بسا کے رکھنا ہے ۔۔۔۔ اور آپ کو میرے ذاتی معاملے میں دخل کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔؟"
میرے میاں کو اُس کے کرتوت پتہ تھے۔میرے سسرال والےعرصہ پچیس سال سے انکے ہمسائے تھے  اور وہ کئی مرتبہ میرے میاں کو اپنے بیٹی دینے کے چکر میں کئی جادو کے حملے کرواچکی تھی ۔  خیر یہ ایک علیحدہ کہانی  ہے ۔۔۔
اور اس بہو رانی نے ثابت کرکے دکھایا کہ مائی خانم کا بڑا بیٹا آیا اور چھوٹے نے آ کے بھائی کو بولا کہ " میرے ساتھ جو سلوک تم نے کر لیا ، اُس کی خیر ہے ۔۔۔مگر ماں تو تیری بھی ماں ہے ، اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے تیری بیوی نے ۔۔۔۔ "
مگر آگے بہورانی نے پورا انتظام کیا ہوا تھا ، بڑے بھائی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔۔۔۔ سبزی کاٹنے کی چُھری سے ہی چھوٹے بھائی کا پیٹ کھول دیا ۔۔۔ اور انتڑیاں ہاتھ میں پکڑا دیں ۔۔۔۔ ماں کو بھی خوب مارا ۔۔۔ اور پھٹے کپڑوں میں ماں کو گھر سے نکال دیا ۔۔۔  ( کپڑے پھاڑنے کا ثواب بہو رانی نے خود کمایا ) ۔۔۔۔۔  بڑا بیٹا چھوٹے بیٹے کو مرا ہوا سمجھ کے بھاگ نکلا۔۔۔ مائی خانم نے جب یہ ماجرا دیکھا تو سمجھی کہ چھوٹا بیٹا مر گیا ۔۔۔۔ تو وہ بھی چھوٹے بیٹے کے سرہانے ہی  اچھی طرح ہڈیاں سینکوانے کے بعد دارِ فانی سے کوچ کر گئی ۔۔۔۔
چھوٹے بیٹے کو ہسپتال جا کے ہوش آیا ۔۔۔ اس کی جان بچ گئی ۔۔۔۔ مگر ماں محلے داروں کے کفن سے اپنے بڈھے میاں کے پہلو میں سپردِ خاک ہو گئی ۔۔۔۔۔
اللہ عورتوں کو کچھ نہیں کہتا  کے مصداق آج تقریباََ اس بات کو 14 سال بیت چکے ہیں ۔۔۔
 بہو رانی ابھی بھی ہمارے سامنے والے گھر میں ہی بڑے ہی غرورو تکبر سے رہتی ہے ۔۔۔۔
 نہ اُس کو کسی بیماری نے جکڑا ۔۔۔۔ اور نہ ہی کوئی اور  مسئلہ ہوا ہے۔۔۔۔
اپنے تین بیٹے بیاہے اور تینوں بہوؤں کو اُنکے میکے سمیت جوتی کے غلام بنا لیا ہے اور گھر میں اب اُسکی بہوؤں کو جوتے پڑتے ہیں ۔۔۔۔
 فل فل دھوم دھڑکے سے ۔۔۔۔
 کسی دن ایک کی شامت ہوتی ہے اور کسی دن دوسری کی اور پھر کسی دن تیسری کی۔۔۔۔۔
تینوں کے میاؤں خارش زدہ کتوں کی طرح بھونکتے اور اپنی بیویوں کو مارتے ہیں ۔۔۔۔
اور پورا محلہ سُنتا ہے ۔۔۔
اور اپنی بیٹی جس گھرمیں بیاہ کے دی ہے وہاں بھی باباجی کےجادو کام دکھا رہےہیں۔۔۔۔
 جیسے بیٹی کا ابا کاٹھ کا اُلو بن کے ساری زندگی گزار آیا ہے۔۔۔
 ویسے ہی بیٹی نے ماں کے نقشے قدم پہ چلتے ہوئے اپنے شوہر کو لگام ڈال کے رکھا ہوا ہے ۔۔۔
 اور بیٹی ماں سے دو کی جگہ بھی چار ہاتھ آگے کی انتہائی شریف بدمعاش نکلی  ہے ۔۔۔۔
(اس جملے کے بعد فیس بکی محقیقین کہیں مجھے ہی تبلیغ نہ کرنے لگ جائیں کہ میں نے کسی کی دھی دھانی کو ایسے الفاظ سے پکارا ۔۔۔۔    قسمے میرا قصور نہیں ۔۔۔۔ لڑکی واقعی اتنی ماں کے قدموں سے آگے نکلی ہے کہ دس لڑکوں سے اکیلی نبٹ لے ۔۔۔۔ ایسی زبردست جنگجو قسم کی زبان بولتی ہے۔)
ہمارے پاکستانی نام نہاد علماء کے فتوے برقرار رہیں گے اور اللہ پاک روزِ محشر ان فیس بکی اور میڈیائی علماء کے کہنے اور فتویٰ دینے کے مطابق بہوؤں کو کچھ نہیں کہے گااور جنت میں اعلیٰ مقام سے نوازے گاجبکہ تمام بڑھیا ساسوں کو دوزخ کے اعلیٰ مقام میں قید کرے گا۔۔۔۔۔۔ کیوں نا۔۔۔۔۔۔
کیا خیال ہے ۔۔۔۔ ایسا ہی ہے ۔۔۔۔ نا
شریعت اس بات میں نہیں کہ کسی خودغرض اور ہٹ دھرم قوم کو وہ مسائل بھی بتا دیئے جائیں کہ جن کو وہ اپنا حق سمجھتے ہوئے سنگدلی اور اُس شرعی اصول کا غلط استعمال شروع کردے۔۔۔۔
ہمارا معاشرہ ننانوے فیصد ہندو معاشرہ ہے ۔۔۔
 سوشل میڈیا پہ کمنٹ بازی اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں حکایات اور ننھی مُنی سی تبلیغ دل کو واقعی بہت لُبھاتی ہے ، مگر یہ سب معاشرے کے کسی کام کی نہیں ۔۔۔۔

فی زمانہ نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ اک دوجے کو لیکر چلتے ہوئے اور اپنی سوچ کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے مختلف مسائل اور معاشرتی برائیوں کو بے نقاب کریں اور پھر اُ ن برائیوں کے سدباب کیلئے مثبت قدم اُٹھاتے ہوئے ان برائیوں کی روک تھام کا کام کریں ۔ تاکہ معاشرے کا  "لقوہ زدہ چہرہ " اپنی صحیح اور مثبت شکل میں سامنے آ سکے ۔ اور معاشرے میں سکون کی فضاء قائم ہو ۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment