اُنہیں بھولنے کی عادت تھی۔ شادی
کے بعد پہلے تو میں نے اتفاق سمجھا ۔ ان کی مصروفیت کی وجہ سمجھی لیکن جلد ہی
اندازہ ہوا کہ اُنہیں تو عادت ہے۔ یہ عادت وقت کو مزید مختصر کرتی گئی یعنی وہ ایک
دن میں بھول جاتے کہ کس سے کیا کہا۔۔۔کس سے کہاں ملاقات ہوئی۔۔۔یا کس نے کیا کہا
تھا۔۔۔
مجھے کچھ منگوانا ہوتا تو لکھ کے
دیتی ، فون کرکے پرچہ پڑھنے کا یاد بھی دِلاتی ،پھربھی توقع ہوتی تھی کہ جو
منگوایا ہے
وہ شاید ہی لایا جائےاور عموماََ ایسا ہی ہوتا تھا۔میں اُن کے دفتر سے
واپسی پہ معلوم کرتی تو وہ زیرِلب مسکرا دیتے اور میں۔۔۔ کب تک غصہ کرتی۔۔۔آہستہ
آہستہ اُن کی اس عادت سے مجھے بھی عادت ہو گئی۔ البتہ اس پہ کبھی کبھی تو اتنی
کوفت ہوتی کہ کچھ کہنا بولنامحال ہے۔ گھر کے باقی افراد بھی اس بات کے عادی تھے۔
میں نے ایک مرتبہ ان کی والدہ(اپنی ساس) سے بھی شکایت کی کہ موصوف ہر بات بھول جاتے
ہیں۔اُنہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا،
"اگر یہ اپنے کام کی چیز
یادرکھے تو سمجھو کے مصلحتاََ بھولتا ہے لیکن یہ اپنے ضروری کام بھی بھول جاتا ہے ۔
یہ سب اس کی وہ عادت ہے ،جو خاندانی ہے۔ اس کے باپ کا بھی یہی حال تھا، وہ بھی
نسیان کے مریض تھے اور یہ بھی اس مرض میں مبتلا ہے۔"
تب سے مجھے اُن سے ہمدردی سی
ہوگئی۔
آج وہ دور۔۔۔بہت دور نکل گئے۔۔۔ سب
کچھ چھوڑ چھاڑ۔۔۔سب کو بھلا کر۔۔۔
کبھی واپس نہ آنے والے۔۔۔ راستے پر
نکل گئے۔۔۔جہاں کسی بھول ۔۔۔ کسی یاددھیانی کی ضرورت نہیں پڑتی۔۔۔ جہاں کوئی بھول
بھی جائے تو دُکھ نہیں ہوتا۔۔۔ بس، مجھے دل کی ہر نماز میں بے اختیار کر گئےکہ میں
اَن دیکھے آنسوؤں سے دعا کیلئے"اُن کے لیے" جھولی اُٹھائے رکھوں، شاید
اِسی لیے اپنی کوئی نشانی بھی نہ دے گئے
کہ میں پھر بچوں میں مصروف ہو کر اُنہیں بھول جاتی۔۔۔
کیسی ہے یہ ستم ظریفی۔۔۔ کیسے ہیں یہ دل کے رشتے۔۔۔سات
سال پہلے اس بے وفا دنیا سے ناطہ توڑ کر ملک عدم کے مسافر ہوئے اور مجھے پھر
"بھول"گئے اور میں ہوں کہ ہر لمحہ ان کی یاد دل سے لگائے، زمانے کی
ناہمواریوں سے نبردآزما جئے جارہی ہوں ۔جس دن "اُن کی یاد" سے غفلت کے
سبب دعا مانگنے میں کوتاہی ہو۔۔۔یوں لگتا
ہے جیسے کوئی "ہارٹ بِیٹ مِس ہوئی ہو۔۔۔
کوئی انمول خزانہ چھین لیا گیا ہو
۔۔۔یوں میں"اُن" کی بخشش اور اُخروی زندگی کی آسانی مانگتی ہوں۔۔۔
میں نہ بھول پائی۔۔۔نہ خود کو روک
پائی۔۔۔ پتہ نہیں وہ کیوں بھول چلے۔۔۔
اِک دن یونہی میں اُن کی الماری صاف کر رہی تھی کہ ایک صفحہ
ملا جس پہ درج تھا،
"ڈاکٹر صاحب! آپ کا فون کئی
دن سے بند ہے۔ میں یہ خط پوسٹ کر رہا ہوں۔ مجھے بھولنے کی جو بیماری ہے ،بہت بڑھتی
جارہی ہے۔ اب تو اِتنی بڑھ گئی ہے کہ میں عاجز آگیا ہوں۔ آپ مجھ سے علاج کا کہا
کرتے تھے اور میں ٹال جاتا تھا۔ میں اپنا فون نمبر لکھ رہا ہوں۔ آپ جب جب خان پور
آئیں تو مجھے ضرور فون کریں۔ میں فوراََ علاج شروع کرنا چاہتا ہوں۔۔۔
میں
جانتا ہوں کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو ۔۔۔
مجھ جیسے بھولنے والے کو امی اور
نادرہ نہیں بھلا سکیں گی ۔"
میں اس صفحے کو پڑھ کے سُن بیٹھی
رہ گئی۔ شاید وہ یہ خط بھی پوسٹ کرنا بھول گئے تھے۔۔۔!!
تحریر: Safeer E Haq
پیشکش: Dunya Plus
مزید پڑھئے:
No comments:
Post a Comment