Thursday, April 27, 2017

Suicide...!!





لاہور کی ایک ماں نے اپنے دوشیرخوار بچوں کو موت کی نیند سلا کے
خود کو بھی موت کی اندھی وادی میں دھکیل دیا۔۔۔!!
اور فتوے گیر بتا رہے ہیں کہ "اُسے اللہ پہ یقین نہیں تھا کیا۔۔۔"
جب بھوک ہروقت دروازے پہ ناچ رہی ہو
تو رب اور ایمان نہیں یاد آیا کرتا،
اس لئے چھوڑیں کہ یہ تعریف ہوسکتی یا وہ دلائل ہو سکتے،
جس ماں کے سال اور دوسال کے بچے بھوک سے بلک رہے تھے
وہ کیا اور کہاں کا "یقین اور ایمان" قائم رکھ سکتی تھی؟
کیا وہ ان کے دودھ خوراک کے انتظام کے لئے بھاگی دوڑی نہیں ہوگی؟
کیا اُس ماں نے آس پاس کے لوگوں سے مدد نہ مانگی ہوگی؟
کیا اُس ماں نے بھیک کے لئے ہاتھ نہ پھیلایا ہوگا؟
یہ تو 60 فیصد آبادی کے ایک گھر کا معاملہ سامنے آیا ہے،
ارے----
 کئی شرفا اپنی بیٹیوں سے دھندا کروانے پہ مجبور ہیں،
بھیک دینے والے بھی "جوان بھیک مانگنے والی" سے پوچھ لیتے ہیں
"دوگھنٹے کا کیا لوگی۔۔۔؟"
سڑکوں پہ پوچھتے نظر آتے ہیں
 کاروں میں بیٹھے عظیم عوامی لوگ "دوگھنٹے کا کیا لوگی؟"
اسی طرح کی ایک خاتون سے میں نے پوچھ لیا کہ "یہ کام کیوں کرتی ہو۔"
اس نے بھرے بازار میں ہی کھڑے کھڑے پیٹ سے کپڑا اٹھا دیا،
اُس کے پیٹ پہ چپاتی کے برابر زخم تھا،
خوف سے مجھ سے دیکھا نہی جارہا تھا کیونکہ زخم میں گل سڑ کے سنڈیاں چل رہی تھیں،
بولی:"میرا اور میرےشوہر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے،یہ  زخم بھی ایکسیڈنٹ کا ہی ہے،
شوہر کسی کی گاڑی چلاتا تھا، ایکسیڈنٹ ہو گیا،اب روٹی نہیں ہے گھر میں،
 بیٹی کو لے آئی ہوں کہ کچھ کھانے کو مل جائے گا،
 بھیک مانگنے پہ بھی  جسم کےمول تول پوچھے بولے جاتے ہیں، کیا کریں،
اور کس سے مدد مانگیں۔پیٹ بھرنے کو اب جسم "بیچنا" ہی رہ گیا ہے،
 کوئی تھوڑی دیر نوچ کھسوٹ لے گا اور دو پیسے دے گا، پھر پیٹ کا دوزخ بھریں گے نا۔
کوڑے کے ڈھیروں سے اٹھائیں تو ہوٹلوں والے ٹھڈے مارتے ہیں،
 وہ بھی کوڑے پہ پھینکے ہوئے کوڑے کو"بیچتے "ہیں۔
گھروں میں کوئی کام نہیں دیتا،
 اگر کسی گھر میں کام ملتا ہے توگھرکے مردوں کی مفت رنڈیاں بننا پڑتا ہے۔۔۔"
میں:"بی بی ! تم جو کچھ بھی کرتی ہو، وہ تیری مرضی،
 میری دکان سے دوا لے جایا کرنا،
 اس سے زیادہ کی مجھ میں ہمت نہیں۔۔۔"
اس کے شوہر کوبھی جا کے دیکھا، تو اس کی ریڑھ کی ہڈی گل چکی تھی،
 بس زخم تک ہی علاج ممکن تھا، وہ میں نے کر دیا،
گھر میں پانی پینے کا ایک گھڑا، چار سلور کے برتن ایک دیگچی اور کوئی بستر نہیں تھا،
 اس کا شوہر بھی زمین پہ ہی پڑا ہوا تھا،
 دیکھنے سے ہی پتہ لگ رہا تھا کہ وہ لوگ گھر کا سب کچھ بیچ کے کھا چکے،
 تین جوان بیٹیوں کے ساتھ معذور شوہر اور بیوی۔۔۔!!
 مگر80 روپے فی دن کی دوائی بیچنے والامیں اکیلا کیا کرسکتا ہوں۔۔۔؟
میں اتنا ہی فری علاج کر سکتا ہوں کہ اگلا انسان چل پھر کے اپنی روٹی کما لے،
آپ سے نہ انعام لینا ہے اور نہ کوئی دکھاوا ۔۔۔یا۔۔۔ ریاکاری ہے۔۔۔
سوال یہ ہے کہ کب تک یہ عوام گدیلوں پہ چڑھی ،
 ٹھنڈے اے سی کی میٹھی ہواؤں سے
"اسلامی بھاشن" دیتی رہے گی۔۔۔
اللہ کے دیئے ہوئے خوب رج کے استعمال کرو
مگر یوں لوگوں کی عزتوں کے بیچ سڑکوں پہ مول تول تو مت لگاؤ۔۔۔
وہ عورت دوماہ تک دوا لے جاتی رہی،دوماہ  کے بعدنہیں آئی،
اس کے گھرجا کے پتہ کیا تو لوگوں نے بتایا کہ کرایئے پہ تھے،
مالک مکان نے نکال دیا۔۔۔
لوگ کام نہیں دیتے،
ٹھڈے مارتےہیں،
مزدوری نہیں ملتی،
اگر کوئی مزدوری کا کام مل جاتا ہے،
توعوام اتنی اچھی ہے
کہ پورا کام کروا کےبھی شام ڈھلے پوری مزدوری نہیں دیتے،
ہر کوئی سوشل میڈیا پہ اپنے دکھ نہیں بیان کر رہا،
دلائل سے کب پیٹ بھرتے؟
دلیل کب ننگے بدن کو کپڑا دے سکی ہے؟
اوپر والا دوسروں کو آزمانے کیلئے کچھ انسانوں کو غربت دیتا ہے،
یہاں کہا جاتا ہے کہ فلاں قسمت سے غریب ہے؟
ایسا نہیں ہے،
کچھ انسانوں کو غربت دے کے امیروں کی "امیری" کو آزمایا جا رہا ہے،
جس کا کل پوچھا جائے گا،
اور ڈنڈے سے پوچھا جائے گا۔۔۔    مزید پڑھئے:  سوشل میڈیا اور ہماری نئی نسل
پھروہاں یہ نہیں ہوگا کہ
"نِکی سی نیکی کی ہے تم نے،
چلو شاباش تیرے حصے دی جنت تجھے اداس  ہورہی  اے،
چل شاباش، کاکا/کاکی۔۔۔ دوڑ کے جنت میں چلے جاؤ۔۔۔"
ساری جنت ہمارے ہم وطنوں کو ہی نہیں مل جانی،
(حد ہے وئی، جنت نہ ہوئی۔۔۔ ماسی دا پِنڈ(گاؤں)  ہو گیا،
جدوں مرضی سیر کر آؤ۔۔۔)
اگر کہا جاتا ہے کہ"ہمسایہ ہمسائے کا ذمہ دار بنے گا،
ہمسایہ اپنی جگہ لازم ذمہ داربنے گا،
تو اُس ہمسائے کی ذمہ داری سے پہلے حکمران ذمہ دار بنے گا
اور حکمرانوں کے ساتھی اور سپورٹر ذمہ دار بنیں گے کہ کیوں بھوک پھیلائی گئی،
اور کیوں دوسروں کا حق چھین چھین کے دلائل دیئے گئے؟
کیا ہمارے آس پاس جو کچھ ہو رہا ہے ،
ہمیں نظر نہیں آتا،
ہماری سوچ نہیں کام کرتی ،
دیکھئے  دیکھئے---
ابھی آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
ایک ماں نے اپنے شیرخوارجگر کے ٹکڑے اپنے ہاتھوں مٹی میں ملا دیئے ---
اور خود بھی مٹی میں جا سوئی---!!
اور دوسری ماں اپنی بیٹیوں کا جسم بیچ کے ان کے پیٹ کا دوزخ بھرنے پہ مجبور ہے---!!
نوٹ:-فتوے والوں سے گزارش ہے کہ میری پوسٹ پہ فتوے دینے مت آنا،
میں بہت برا انسان ہوں ،
مجھ پہ کسی کے فتوے اثر نہیں کرتے،
اس لئے فتوے گیر میری پوسٹ سے دور رہیں۔۔۔ شکریہ---!!
تحریر: سفیرِ حق
پیشکش: دنیا پلس
٭٭٭ مزید پڑھئے:  دل کے قلم سے 

No comments:

Post a Comment