ہم
ہر وقت یہی کہتے اور ایک دوسرے کا منہ توڑتے ہیں کہ
"جو کوئی سوچتا ہے
، اسے ویسا ہی دِکھتا ہے، کیسا ہمارا منافقت سے لبریز جواب ہوتا ہے،"
ابھی
بھی میری دکان کے بالکل سامنے قریباََ سو
میٹر کے فاصلے پہ کچھ مزدور بیٹھے ہیں کہ کوئی آدھی دھاڑی پہ ہی مزدوری کیلئے لے
جائے، کوئی دوسوتین سو پہ ہی لے جائے،
پھر جب دھاڑی نہ ملی تو چپ چاپ عصر کے بعد
صبح سے بھوکے اُٹھ کھڑے ہوئے اور دکانوں، بازار میں پھرنا شروع کر دیتے ہیں کہ شاید اب بھیک کے
نام پہ اتنے تو مل جائیں کہ جاتے ہوئے دو کلو آٹا آ جائے، اور بچوں کے ہاتھ پہ کوئی
ایک دو روپے کی ٹافی رکھ دیں،
وہ چپ چاپ ہماری دکانوں کے آگے سے رکتے چلتے رہتے ہیں
اور ہم چپ چاپ حسبِ توفیق دیتے رہتے ہیں،
تیس چالیس بندوں کے گھر کا نظام اللہ چلا سکتا ہے،
یا
حکومت وقت چلا سکتی ہے
یا سرمایہ دار ان کو کہیں کام دے کے چلا سکتا ہے،
ہم خود کرایوں پہ بیٹھے، پانچ دس روپے دیتے
جاتے،
تو کونسا کسی کی جائیداد بن جاتی ہے
یا وہ جمع
کرکے جائیداد بنا لیتے ہیں؟
کچھ
بھی نہیں، کچھ بھی تو نہیں،
وہ
ہمیں دیکھ کے ٹھنڈی آہ بھرتے ہیں
اور
ہم اُنہیں دیکھ کے اذیت سہتے ہیں کہ کچھ کر نہیں سکتے۔
کمرشل
ریٹ میں بجلی کا بل بغیر کسی اطلاع کے 6 روپے فی یونٹ بڑھا دیا گیا ہے،
ایک پنکھا اور ایک 25 واٹ کے انرجی سیور کے
علاوہ کوئی بھی دکاندار متحمل نہیں ہوتا کہ بجلی خرچ کرے،
لالچ
ہوتی ہے کہ گاہک کے آنے پہ کم ازکم بجلی ضرور ہو تاکہ گاہک تنگ نہ پڑے،
کئی ایک دکاندار گاہک اٹھ جائیں یا گاہک نہ آئیں
تو
پنکھا بھی بند کرکے اخبار کے ٹکڑوں سے گزارہ کرتے رہتے۔
ہائی
کلاس دکاندار اے سی بھی چلا رہے ہیں
(ان کے "اے سی چلانے کا قطعاََ اعتراض ، بغض یا حس نہیں ہے)
بلکہ سودی نظام کا اعتراض ہے۔ صرف سودی نظام۔۔۔
سود کی آبیاری سے "مینوں نوٹ وکھا سجنا، میرا موڈ بنے۔" کے مصداق چل رہے
ہیں،
ہمیں
ان کے "اے سی " پہ نہیں سود پہ اعتراض ہے اوریہ اعتراض"دن قیامت" بھی رہے گا،
کیونکہ
ایسوں نے اللہ کے خلاف جنگ شروع کی تھی
ساتھ ہم جیسوں سود کے بغیر جینے کی
آرزو رکھنے والوں کوبھی بھگتنا پڑ رہا ہے،
مجھے
یاد ہے کہ اسی دکان کے سامنے آج سے پندرہ سولہ سال پہلےصبح نو بجے کے بعد مزدور
نہیں ملا کرتا تھا،
لوگ مزدور ڈھونڈنے کیلئے میلوں تک دوسرے بازاروں کا سفر کیا
کرتے تھے۔
آج
سود کی ذلتیں ساری قوم کے پَلے پڑی ہوئی ہیں،
مگر ہر کوئی اپنے آپ میں مگن ہے،
کسی کے پاس سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے،
ہاں یہ
"گمان"ہم سب
کے پاس ہے کہ"جنت مسلمان کیلئے پکی ہے۔۔۔"
یہ اور بات ہے کہ وہاں جا کے پتہ چلے کہ
"کفار کو مثل کوئلے اور لکڑی کے جلایا جارہا ہے اوراُس ایندھن پہ مسلمانوں کے چرغے بھونے جا رہے ہیں تاکہ صفائی ہو اور جنت کی خوشبو کے قابل یہ مسلمان ہو سکیں، فیر کج سوچیا جا سکدا اے کہ جنت مل جائے گی۔۔۔"
"کفار کو مثل کوئلے اور لکڑی کے جلایا جارہا ہے اوراُس ایندھن پہ مسلمانوں کے چرغے بھونے جا رہے ہیں تاکہ صفائی ہو اور جنت کی خوشبو کے قابل یہ مسلمان ہو سکیں، فیر کج سوچیا جا سکدا اے کہ جنت مل جائے گی۔۔۔"
اب
یہ تو ممکن نہیں لگتا کہ پوٹی کئے ہوئے بچے کو آپ مسجد میں امامت کیلئے کھڑا کر
دیں،
اسی طرح امید کی جاتی ہے کہ
"صفائی کے بعد "جنت جنت" کھیڈاں گے۔۔۔"
آقا
کریم ﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے،
سرمائے میں سود کی شرح چل پڑی،
تقسیم کے عوامل خراب ہوگئے،
ہماری قوم دوسروں کی محتاج ہو گئی،
نوکری پیشہ اپنا مہینہ اوپر نیچے گنتے ہوئے
گزارتا ہے،
اور لوئر کلاس دکاندار پھٹے پرانے دکان کے مال
کو باربار
کپڑا مار کے چمکانے کی ناکام کوشش میں کماتا ہے،
یوں زندگی کی بیل گاڑی رینگتی جا رہی ہے۔۔۔
دن
بہ دن عالمی دنیا کے ساتھ مہنگائی کو جان بوجھ کے بڑھایا جارہا ہے،
قوموں کے قتل کیلئے اب ہتھیار سے زیادہ معاشی
تنگدستی ہی کافی ہے۔
جس زرعی ملک میں آٹھ سو روپے فی کلو "چھلی کے
تُکوں" سے دودھ کشید کرکے بیچا جارہا ہو
ا ور مریض کیلئے پاؤبھر بھینس کا دودھ میسر نہ ہو،
اس قوم
کی کیا ہی نیند اور کیا ہی کہنے۔۔۔!!
چالیس سال کی عمر گزار جانے کے بعد جسم ہلنے
جلنے لگ جاتا ہے،
ناکافی
خوراک اپنے "عوامل کا سود" وصول کرنے کے چکر میں
انسان کو بیماریوں کا تحفہ دیتی ہے،
اور ہم "اللہ دی مرضی" کا راگ الاپتے
چلے جاتے ہیں،
ہمارے بعد کوئی اور اسی جگہ اذیتیں سہنے اور دیکھنے
آ جائے گا،
بس اب تو مقروض ہے زندگی۔۔۔!!
#مزدور ڈے مبارک
٭٭٭
مزید پڑھئے: اللہ عورتوں کو کچھ نہیں کہتا
No comments:
Post a Comment