Saturday, December 31, 2016

Happy New Year 2017



Happy New Year 2017


٭٭٭ ساڈیاں ترقیاں تے  مشوم بہانے ٭٭٭
زیر نظر کچھ لنکس ہیں جن میں ہمارے ہاں بھی "نئے سال مبارک یعنی ہیپی برتھ ڈے" اوہو ، نہیں، "ہیپی نیو ائیر"  کے سلسلے میں خوب تیاریاں کی گئی ہیں اور ابھی آج رات بارہ بج کر ایک منٹ پہ پوری شدومد سے نئے سال کے استقبال کیلئے دم پخت قسم کی "شراب سے لتھڑی ہوئی تھوتھنیاں تھرکتی جوانیوں کی زلفوں کے سائے تلے" اپنے نئے سال کے لئے شیطان الخبیث کے ساتھ نئے ترقی یافتہ دور کی جدتوں سے سرفراز ہوتے ہوئے "نئے سال " میں قدم رنجہ فرمائیں گے۔

Saturday, December 3, 2016

Bad Attitudes...


http://dunyaplus.blogspot.com/2016/11/normal-0-false-false-false_11.html#more
زندگی کے مدوجزر بہت عجیب بن چکےہیں۔معاشرتی سطح پہ مچی ہوئی افراتفری اور حسدوبغض کے افعال  ماری عوام کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔کچھ ہماری بے وقوفیاں اور کچھ جلدی سب کچھ حاصل کرنے کے چکر میں۔ یوں لوگ وقت سے پہلے اور بہت کچھ حاصل کرنے کیلئے غلیظ کاموں سے بھی نہیں چوکتے۔۔۔
اپنی بیاض کھنگالتے ہوئے آج یہ اذیت ناک کہانی سامنے آگئی۔۔۔
سوچا۔۔۔آپ سب سے بھی شئیر کردوں۔۔۔
ایک لڑکی نما عورت میرے مطب پہ تین سال پہلے آئی تھی،جوطویل اور صبرآزما  علاج کے بعد اپنی زندگی میں واپس آئی۔۔۔
بات کچھ یوں تھی کہ ایک دوپہر وہ نووارد لڑکی میرے مطب پہ آئی۔ اس سے پہلے  کچھ خواتین و حضرات کو میں دوائیں دے رہا تھا ،
 جب اس کی باری آئی تو پوچھا،"جی بی بی! تمہارا کیا مسئلہ ہے اورتمہارے ساتھ کون ہے۔"
"جی میری طبیعت نہیں سنبھل پا رہی، بار بار بخار اور عجیب سی تھکاوٹ ہے۔یہاں مطب کے قریب سے گزر رہی تھی،
تو یہیں رک گئی۔چلنا پھرنا محال ہوتا جا رہا ہے۔"وہ بولی اور ساتھ ہی نبض دکھانےکیلئے ہاتھ آگے بڑھایا۔

Amnesia...!!


 Amnesia

اُنہیں بھولنے کی عادت تھی۔ شادی کے بعد پہلے تو میں نے اتفاق سمجھا ۔ ان کی مصروفیت کی وجہ سمجھی لیکن جلد ہی اندازہ ہوا کہ اُنہیں تو عادت ہے۔ یہ عادت وقت کو مزید مختصر کرتی گئی یعنی وہ ایک دن میں بھول جاتے کہ کس سے کیا کہا۔۔۔کس سے کہاں ملاقات ہوئی۔۔۔یا کس نے کیا کہا تھا۔۔۔
مجھے کچھ منگوانا ہوتا تو لکھ کے دیتی ، فون کرکے پرچہ پڑھنے کا یاد بھی دِلاتی ،پھربھی توقع ہوتی تھی کہ جو منگوایا ہے

Tuesday, October 18, 2016

Modern Insensitive and Courageous Mother



دوستو !
لکھنے کے لئے  آج جس موضوع کا انتخاب کیا ہے اس کی تحریک  میرے مطب پہ آئی  دو خواتین کی  اس  بے بسی سے ملی  جس کو بیان کرنا  بھی میرے لئے اذیت  ناک ہے۔۔۔
یہ معاملہ  ہمارے معاشرے میں سرطان کی طرح  پھیلتا  محسوس ہو رہا ہے اور اگر  بروقت ہم اس کو سمجھنے اور اس کے تدارک  میں کامیاب نہ ہوئے تو  ہماری موجودہ اور آنے والی نسلیں تباہ ہو جائیں گی ۔  آتے ہیں اصل معاملہ کی طرف۔۔۔
ایک صبح دو خواتین میرے مطب پہ آئیں اور یوں گویا  ہوئیں۔۔۔


Friday, February 19, 2016

The Best Person



The Best Person

وہ ایک بہت ہونہار اور باادب بچہ تھا ۔ پل کر جوان ہوا تو قدرت نے مزید اس کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر دیا ۔وہ مقابلے کا امتحان پاس کرکے گورنمنٹ ملازم بھرتی ہو گیا اور اب گھر کا بڑا بچہ ہونے کی وجہ سے اُس کا رشتہ طے کر دیا گیا اور شادی کی چھوٹی چھوٹی تیاریوں میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں ڈھونڈنے کی سعی کی جا رہی تھی  اور ایسا ہونا بھی چاہیئے تھا۔ ایک بہترین کردار ، نماز روزے کا پابند اور ایک بہترین بااخلاق نوجوان جو آج کےدور میں "آٹے میں نمک کے برابر " بھی نہیں رہے ، کوئی اچھا نکل آئے تو واقعی عجب سا محسوس ہوتاہے ۔

Saturday, January 30, 2016

Become Pakistani


 دیسی لبرل گدھے بننے سے بچیں
بہت جلد پاکستان سے نکاح کی سُنت رسول ﷺ کا خاتمہ ہونے والا ہے
اور صرف گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا غلیظ ترین رشتہ عام ہوگا کیونکہ
ہمارے معاشرے اور ہمارے ملک میں نکاح انتہائی مشکل کر دیا گیا ہے۔
کیا ماں باپ کو نہیں پتہ کہ ان کی اولادوں کے بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ ہیں؟
سب پتہ ہے مگر وہ چپ ہیں ۔ لڑکی کسی لڑکے سے مل کر گھر آئے تو ماں اُس کی چال
دیکھ کے جان جاتی ہے کہ وہ کیا کر کے آئی ہے۔۔۔؟؟؟
ہم لوگوں نے جان بوجھ کر نکاح کو مشکل سے مشکل تر کر دیا ہے۔

Monday, January 18, 2016

Our Society



نیا دور اور ہمارا معاشرہ

دنیا ایک گلوبل ویلیج یعنی ایک گاؤں کی صورت اختیار کر چکی ہے ۔ روزانہ ہر دن ، ہر گھنٹے بعد بلکہ ہر لمحہ  میں مختلف قسم کی آراء اور  رپورٹس عام آدمی کی پہنچ میں آ چکی ہیں جنہیں کوئی غرض ہے بھی  یا نہیں بھی ہے دنیاوی  حالات و سیاسی  حالات  جاننے کی ، وہ بھی اس میڈیائی طوفان سے کسی طور بچ نہیں پا رہے ۔ ایسے میں وطنِ عزیز میں کیبل دور سے لیکر اس سوشل میڈیائی دور تک بہت سے ایسے واقعات اور بہت سے ایسے حادثات دیکھنے اور سُننے کو مل رہے ہیں جو کہ عام آدمی کی برداشت سے باہر ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں عام آدمی ان تمام تحقیقات، سیاسیات اور دنیاوی گلوبل کی کہانیاں دیکھ اور سن سن کر بے حسی کی زندگی کی طرف مائل ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس سے ہمارے معاشرے کو بے حس کرنے کے جو مغربی نتائج حاصل کرنے کی ایک مزموم مقصد یا کوشش تھی وہ بہرحال کامیاب ہو چکی ہے ۔

Sunday, January 17, 2016

Qatil Behan : A True Story



وہ مجھے جیل میں ملی۔محترمہ بینظیر کے قتل کے بعد شروع ہونے والے ہنگاموں میں میرے چچا کے موٹر سائیکل سے بلوائیوں نے پٹرول نکال کے بس جلا دی تھی۔ اور اس ضمن میں میرے چچا کو جیل کی ہوا خوری سے فیض یاب ہونا پڑا۔" کرے کوئی تے بھرے کوئی " کا اعلیٰ قانون ہمارے ہی ملک میں تمام اقدار اور شُہرہ آفاقی کیساتھ موجود ہے اور شاید موجود رہے گا۔ خیر چھوڑیں۔ اصل بات اور اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔یہ آپ بیتی میں نہ لکھتا مگر اپنے پاکستانی سوشل میڈیا پہ کچھ ایسے معاملات نظر آئے جس کی وجہ سے میں نے اس "آنٹی " کی زندگی کی سب سے تلخ حقیقت آپ لوگوں کے سامنے اُن کی اجازت سے لکھی ہے مگر نام اور جگہ اُن کی عزت کی خاطر تبدیل کئے ہیں۔ لیجئے ، تمام حالات و واقعات اُنہی کی زبانی سنئے۔

Saturday, January 16, 2016

SaaS aur Bahu : A True Story



اللہ عورتوں کو کچھ نہیں کہتا

"بیٹی ! روٹی ملے گی ۔  تین دن سے بھوکی ہوں۔ مجھے نظر بھی نہیں آتا ۔ اور بھوک سے تندور تک نہیں جا سکتی ۔ پوتے لا کے نہیں دیتے اور میرے پاس پیسے بھی کوئی نہیں ہیں ۔" اتنا کہتے ہوئے اُس نے اپنی نیم وا آنکھیں موند لیں دروازے چوکھٹ کے سہارے ۔ شاید وہ رو رو کے پہلے ہی اپنے سب آنسو بے نور ہوتی آنکھوں سے بہا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 اور میں ٹکٹکی باندھے اُس نحیف سی بڑھیا کو دیکھنے لگی ، مگر یہ صرف چند ساعت ہوا ، اور وہ نیم بیہوش  سی اک دم دروازے سے جھول گئی ۔ میرا بھی سکتہ ٹوٹا اور میں نے جیسے تیسے کرکے اُس بڑھیا کو اندر گھسیٹ لیا اور بچوں کو زور سے آواز دے ڈالی ۔ مگر میری آواز بچوں تک تو پہنچی مگر وہ نحیف سی روح وہیں ڈھیر ہو گئی ۔۔۔۔۔۔