ایک سپاہی اپنے گھوڑے
پر سوار جا رہا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ ایک شخص راستے میں درخت کے نیچے پڑا غافل سو
رہا ہےاور اُسکا منہ سوتے میں کھلا ہوا ہے۔ ایک چھوٹا سا سانپ اپنے کسی دشمن کے
خوف سے دوڑتا ہوا آیا اور اُس سوئے ہوئے شخص کے منہ کو چھپنے کی جگہ سمجھ کر اُس کے
منہ میں گھس گیا۔ سوار سپاہی نے جو پاس سے گزرتے ہوئے یہ ماجرا دیکھا تو بہت
پریشان ہوا، اور سوچنے لگا کہ سانپ کو اس سوئے ہوئے شخص کے پیٹ میں سے کیسے نکالنا
چاہیے۔ ادھر اُدھر اُس سپاہی نے نظر دوڑائی تو اُسے پاس ہی ایک باغ نظر آیا اور
ایک درخت کے نیچے بہت سے گلے سڑے سیب اور مختلف پھل گرے ہوئے تھے۔
اچانک سپاہی کے ذہن
میں ایک ترکیب آئی۔ اُس نے گھوڑے سے اتر کر اس نادان غافل کی گُدی پہ چند زور دار
مکے لگائے۔ سویا ہوا شخص ہڑبڑا کے اُٹھ بیٹھا اور بھاگ گھڑا ہوا۔ سپاہی دوبارہ
اپنے گھوڑے پہ سوار ہوا اور اُس بھاگتے شخص کو جا دبوچا اور اور مزید مارتے ہوئے باغ
میں لے آیا اور حکم دیا ، " اے بے وقوف نادان! یہ جتنے بھی پھل درختوں کے
نیچے گلے سڑے پڑے ہیں، یہ سب کھاؤ ورنہ میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا۔"وہ
شخص اس عجیب و غریب حکم پہ جان کے خوف سے عمل کرنے لگا اور سیب اور دوسرے جتنے بھی
پھل زمین پہ گرے پڑے تھے کھانے لگا۔ وہ ساتھ ساتھ روتا بھی جاتا اور اپنا قصور
پوچھنے سے ڈرتا بھی جاتا۔ جب وہ شخص پھل کھا کھا کر تھک گیا اور اُسکے معدے میں
مزید گنجائش نہ رہی تو سپاہی نے ایک نیا حکم صادر کیا ،"اب میرے گھوڑے کے آگے
آگے دوڑ، اگر کہیں بھی دم لیا اور رکنے کی کوشش کی تو تلوار سے تیرا سر قلم کر
دونگا۔"
وہ شخص جان جانے کے
خوف سے گھوڑے کے آگے آگے بھاگنے لگا، اور دوڑ دوڑ کے تھکن سے چور ہو گیا، مگر جب
بھی وہ رکنے لگتا تو سپاہی شڑاپ سے دو تین کوڑے رسید کر دیتا۔ آخر جب اُس شخص کی
ہمت جواب دے گئی تو ہاتھ جوڑ کے بولا "داروغہ صاحب! میں نہ تو چور ہوں اور نہ
ہی چوروں کا ساتھی ،،،،،،،،،، پھر آپ یہ مجھے کیوں ناحق سزا دے رہے ہیں؟" سپاہی نے
جواباََ پھر دو تین کوڑے اُس شخص کو مارے
اور پھر سے اپنا حکم دہرایا "بھاگو! ورنہ ابھی تلوار نکالتا ہوں تیری جان
لینے کیلئے، بھاگ جلدی کر۔"
وہ شخص بیچارہ پھر سے
چاروناچار پھر سے بھاگنے لگا۔ اس طرح تیزی سے بھاگنے سے اُس شخص کو صفرا اور ہیجان
کی تکلیف ہو گئی اور اُسے اک دم قے پہ قے آنے لگی۔ آخری قے جو زور سے آئی تو سانپ
بھی ساتھ ہی باہر نکل آیا۔ جب اُس نے سانپ کو دیکھا تو اُسے سپاہی کی سختی سمجھ
میں آئی کہ سپاہی نے کس غرض سے مارا پیٹا اور دوڑایا بھگایا ہے۔ اُس نے سپاہی کا
دل و جان شکریہ ادا کیا اور اُسکا ممنون ہوا اور کہا " اللہ تجھے جزائے خیر
عطا فرمائےکہ تُو نے میری جان بچائی۔ تیری سختی چونکہ میرے لئے فائدے میں تھی اور میری زندگی کا سوال تھا، اس لئے وہ
سب سختی میرے لئے عین نوازش اور مہربانی تھی۔مگر اے سپاہی! تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں پہلے۔" سپاہی نے جواب دیا، "اگر میں پہلے تمکو بتا دیتا تو تم زندگی کی گھبراہٹ میں اس طرح غصہ ور نہ ہوتے اور میرے حکم عدولی کرتے، اس طرح دوطرفہ دھیان سے تمہاری زندگی کا چراغ گُل ہو جاتا۔"
اس سبق آموز واقعہ میں ایک سبق
بھی ہے اور نصیحت بھی۔
ماں باپ، اساتذہ
اوربزرگ جو بھی سختی کرتے ہیں وہ حقیقت میں بچوں کیلئے مہربانی ہوتی ہے، مگر بچے
اپنی نادانی سے اسکو برا جانتے اور بھاگتے اور بزرگوں کو برا بھلا بول دیتے ہیں۔
سعادت مند اولاد وہی ہے جو بزرگوں کے حکم کی تعمیل کرے ۔بزرگ بھی ہماری زندگی میں "سپاہی " کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ بہت کم بتاتے مگر ہمیں رہنمائی دیتے رہتے ہیں۔ کم بتانے کی حکمت یہی ہے کہ اگر وقت سے پہلے بچے کو پتہ چل جائے تو وہ غلطیاں زیادہ اور صحیح کام کم کرتا ہے، کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے۔
مزید پڑھئے ماں باپ اور اسلام ......!!!
مزید پڑھئے ماں باپ اور اسلام ......!!!
No comments:
Post a Comment