ہمارے ہاں
پاکستان میں آجکل سوشل میڈیا کا اس قدر طوفان آیا ہوا ہے ، یوں لگتا ہے کہ جیسے
سوشل میڈیا کے علاوہ زندگی جینے کا تصور ہی ختم ہو گیا ہو، ہر کوئی اور ہر کسی کے
پاس موبائل انٹر نیٹ کی سہولت کے بعد سوشل میڈیا کا رحجان نمایاں اور کسی حد تک
خوفناک صورتحال کی طرف گامزن ہوتا نظر آ رہا ہے۔
آیئے تھوڑا
اس سے پہلے کی ایک صورت پہ تھوڑا سی لائٹنگ کرکے دیکھتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمارے ہاں
"ڈش انٹینا" کا بھونچال آیا تھا جو کہ ذرا ہماری پہنچ سے تھوڑا دور دور
ہی سے گزر گیا ، یا پھر ابھی شعور نامی جانور ہمارے اندر سے اجاگر نہیں ہوا تھا،
شعورکو جانور قرار دینے کی کچھ تھوڑی سی وجہ یوں ضروری ہو گئی کہ ہمارے پاکستانیوں
کی بارے میں پوری دنیا کے نام نہاد "انسانی حقوق کی این جی اوز " کو
ہمارے عوام ، قوم وملت اور ہمارے معاشرے کی گراں قدر فکر رہتی ہے، ہمیں خود اپنی
کوئی فکر ہو نہ ہو مگر دنیا کی تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں ہمارے حقوق کیلئے دن
رات چوبیس گھنٹے ہفتے میں ساتوں دن مہینے کے تیس دن اور سال کے بارہ مہینے
پاکستانی عوام کے نام نہاد حقوق کی دنیا کے ہر فورم پہ "ڈھول پیٹنے کے
مصداق" فکر مند اور اظہارِ تفکر اور پریشانی میں مبتلا رہتی ہیں کہ پاکستانی
عوام و قوم کے حقوق کی بہت حق تلفی ہو رہی ہے اور بہت زیادہ کرپشن ہے اور حقوق کے
معاملے میں پاکستانی لوگ بہت تنگدسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ خیر "آنٹی ڈش
" کے دور کو تو ہم نے سائیکل کے رموں پہ چڑھتے دیکھا اور یہ دور کچھ زیادہ
ذہنی ، سیاسی ، مالی اور زیادہ باشعور تو ہمیں نہ کر سکا، کوئی اِکا دُکا واقعات
ہی "آنٹی ڈش" ہمارے پاکستان میں پھیلا سکی اور ہم انسانی حقوق کے مادر
پدر آزاد دور سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
پھر ایک
اور آنٹی ہمارے لئے انسانی حقوق کا تمغہ لے کے نمودار ہوئیں، جس سے کہ قوم کو
"ڈیٹ " مارنے کے حقوق حاصل ہونا شروع ہوئے ، ریاست کی نئی نسل کو کچھ
پتہ چلنا شروع ہوا کہ سگے رشتوں کے علاوہ ہمسائے کی آنٹیاں کس طرح پھنسانی ہیں اور
کس طرح کی ڈائیلاگ بازی انسانی حقوق حاصل کرنے کیلئے آنٹی بازی میں ضروری اور اہم
ہوتے ہیں۔ مزید برآں ہمارے ہاں انسانی حقوق میں انڈین چینلنز کے ڈرامے بہت شدومد
سے شامل کئے گئے، جیسے تعلیمی نصاب میں کسی زمانے میں"His First Flight" نامی ایک کہانی کچھ اس طرح ہماری انگلش کے نصاب میں شامل
رہی کہ جسے اگر باپ نے پڑھا تو آگے بیٹے نے بھی اُسی نصاب کو تبرکاََ پڑھا تاکہ
کہیں "اباجی کی پیروی کا فقدان نہ ہو جائے۔"
خیر تو بات ہو رہی تھی
دوسری آنٹی کی، اُس آنٹی کا نام "آنٹی کیبل " ہم شمار کر لیتے ہیں، جس
نے شام سات بجے سے لیکر رات کے بارہ بجے یعنی دوسرے دن کی شروعات تک لے جانا کارِ
خیر جانا ، ہمسایہ ملک کے ڈراموں سے سب سے زیادہ گھریلو خواتین مستفید ہوئیں کہ
گھروں میں بھی سیاست ضروری ہے نا ،،،،،، آخر کو جمہوریت اور شخصی آزادی کا دور جو ہمارے
ملک میں اعلیٰ اقدار کے ساتھ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں نے بمشکل چلایا ،
وگرنہ تو دو دہائیاں ہمارے ڈکٹیٹرز کی صورت میں گزارا۔ لو ، جی
، دسو، کوئی ایمان کی تھوڑی بہت جگہ ہو تو کہیو ، کہ ہمارے ملک نے ڈکٹیٹرز کے دور
میں ترقی کی یا اس بچہ جمورا نامی "آپا جمہوریت" کے دور میں ترقی کی
منازل طے کی ہیں، ؟ دیکھو جی دیکھو، تھوڑا سچے دل سے بولنا ، کیونکہ جان اللہ پاک
کو دینی ہے جمہوریت والوں کو نہیں۔؟ چلو ، تہاڈی مرضی، آجکل سب کی اپنی مرضی ہے، سچ بولو نہ بولو مگر جھوٹ "فیشن " کے طور پہ بولا جاتا ہے ۔۔۔۔!!!
ارے، اوہ
۔۔۔
سوری جی سوری ۔۔۔۔
آپ تو برا مان گئے۔۔۔۔
چلو کوئی گل نئیں جی۔۔۔
سچے جذبے ہم ویسے ہی "آپا جمہوریت " کے آگے
"آنٹی کیبل " کے نام پہ صدقہ کر چکے ہیں۔ اسلئے اس تذکرہ کو بھی رہنے
دیتے ہیں۔ ویسے تو آنٹی کیبل نے ایک 1998ء سے لےکر 2000ء تک یا شاید ایک دو سال
اور تک خوب مُجرا بازی کا کلچر ہمارے انسانی حقوق میں داخل کیا گیا اور ہم نے اس
"زہر" کو بھی "امرت" مانتے ہوئے پی لیا، اور اُن مُجروں
سے ہمارے نئی نسل کے "شی جوان " ابھی تک موبائیلوں میں بھرکے سڑکوں پہ
اکثر راہ چلتے دکھائی دے جاتے ہیں، نتیجہ کیا ہوا۔؟
اور ہمیں اس نتیجے کی کیا پروا،،،،،، ،؟
ہم تو ویسے ہی بے پرواہ زندگی گزارنے کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ "الامان
الحفیظ"۔!!!
خیر تو اب
ہمارے پاک وطن میں میڈیا کے نئے دور کا آغاز ہوا ، جسے "جدید ٹیکنالوجی
" کا دور کہا جانے لگا اور اس جدید دور کے تقاضوں سے ہماری ہم آہنگی نہ ہو
"تے فیر اے گل تے کوئی نہ ، نہ ہوئی جناب، کیوں جی کی خیال اے تُہاڈا"،،،،،،؟
تو جی اب ہم داخل ہوگئے ہیں جدید دور میں ، جہاں پہلی سیڑھی پہ
ٹیکنالوجی کمپیوٹر پہ رینگ رینگ کے چلنا شروع ہوئی، سسٹم پاکستان میں ہر پاکستانی
کی پہنچ میں کرنے کیلئے یعنی نام نہاد بلکہ "آنٹی نہاد" تک پہنچنے کیلئے
ہمارے ہاں 1500 روپے سے لیکر 2000 روپے تک کمپیوٹر مارکیٹ میں کنٹینروں کے حساب سے
پہنچا دیئے گئے، اور جی "ونڈوز "98 سے اک دم چھلانگ لگا کے پہلے آپا ٹیکنالوجی "XP" کی ونڈوز پہ پہنچی اور پھر "ونڈوز 7 "نے آکے نئے پرانے سب
کمپیوٹروں میں "تازہ موبل آئل" کی طرح نئی زندگی اور آسانی دوڑا دی۔
نتیجہ، ؟ نتیجے دی کینو پروا۔؟
حالانکہ "ونڈوز XP
"میں کافی دفعہ خرابیاں آ جاتی تھیں اور دو چار دس بیس دن کمپیوٹر استعمال کرنے والوں
کو کُج دن "سانس " مل جاتا تھا، کمپیوٹرکو بھی اور کمپیوٹر استعمال کرنے
والے کو بھی۔
کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزر سکا اور کمپیوٹر سے سیدھا راستہ موبائل انٹرنیٹ کے دور میں داخل کر دیا گیا، اور انسانی ذہن 40 سال کی عُمر تک پہنچتے پہنچتے 80 سے 90 سال کی عُمر جینا شروع ہو گیا ۔ مگر" ونڈوز 7 "ایسی آئی کہ اس نے بیچارے کمپیوٹر کا "ساہ" ای
کھچ لیئا وا۔۔۔
کچھ لوڈشیڈنگ کا بھی ہماری ریاست میں دور دورا تھا، اس پہ بھی کافی
مغز ماری کی گئی اور صنعتوں کی معاشی اور بگڑتی ہوئی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے
کاروباری اداروں کے نام پہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہوا ، اتنے میں مزید ایک اور
آنٹی آ گئی، جیڑی ساری آنٹیاں تے بازی لے گئی یعنی کہ جیت گئی اور ابھی تک مسلسل
جیت اُسی آنٹی کے نام پہ ہی ہے، اور وہ ہے جی "آنٹی فیس بک" ۔۔۔۔
بس فیر کُج نہ پُچھو جی، ساڈیاں پھرتیاں تے ساڈیاں
اپ ڈیٹاں۔ اس آنٹی فیس بک کے آنے سے ایسی ایسی روزانہ کی، ارے نہیں جی، 6، 8 گھنٹے
کے بعد، ،،،، او نئیں جی،،،، کی گَلاں
کردے او ،،،،،، ہر منٹ منٹ میں "Status Update" موصول ہوتی ہیں، اور بعض دفعہ تو ایک کے پیچھے
ایک "اپ ڈیٹ " آنی شروع ہوتی ہے کہ کمپیوٹر اور موبائل کا براؤزر
ہی "Hang"
ہو جاتا ہے، ویسے آج سے دس سال پہلے تک تو اس "Hang"
نامی لفظ کو لوگ بولنا مناسب نہیں سمجھتے تھے، مگر اب تو یہ لفظ کسی بھی محفل میں
بیٹھنے پہ دس بیس دفعہ ایویں سُننے کو مل جاتا ہے۔ پہلے اس لفظ "اللہ
معافی" کے ایک دو لفظ بھی ساتھ سُننے کو ملتے تھے، مگر اب "ترقی جو کر
لی گئی ہے، تے ہُن اَسی ترقی دے دور نوں انجوائے کرئیے یا پرانیاں گَلاں باتاں یاد
کردے پھرئیے۔۔۔ ہوں"۔۔۔۔۔ خیر جی ،
اس "نیو آنٹی فیس بک " نے آج کے
ہمارے بچوں کو ایسا جدید کر دیا ہے کہ ایک لڑکی جس کی عمر ابھی کوئی تیرہ چودہ سال
کے لگ بھگ ہو گی، اور اُسی لڑکی کے "Status Update" نے مجھے اس بلاگ کو لکھنے پہ
مجبور کیا، میں سفر میں تھا اور موٹر بائیک کے موڑ کاٹتے ہی میرے آگے تین سڑکوں کا
ایک چوک سا تھا ، جہاں خاکروبوں نے ماہانہ گٹر صفائی کی مہم کیلئے چار عدد گٹروں
کے ڈھکن اُٹھا رکھے تھے اور صفائی میں مشغول تھے ، میں موڑ سے مڑا اور میرے سے
تقریباََ 200 میڑ کے فاصلے پہ وہ لڑکی راہ چلتے چلتے اچانک کھلے گٹر کے مین ہول
میں جا گری، نظریں اُسکی موبائل میں اتنی محو تھیں کہ اُسے کچھ بھی گردوپیش کی کچھ
خبر نہ تھی، میری طرح کچھ مزید راہ گیر پہلے تو کچھ دیر تک اچانک کچھ سمجھ نہ
پائے، اور پھر کسی کو اچانک ہوش آ جائے تو ایسی کیفیت کے ساتھ ہی "دوڑو
پکڑو" کی آوازوں کے ساتھ ہی دو خاکروبوں کو گٹر میں اتا را گیا، اور کافی تگ
ودو کے بعد وہ لڑکی یعنی کہ موبائل والی محترمہ گٹر سے نیم بیہوشی کی حالت میں
برآمد کر لی گئیں۔
اب سوال
میرا یہ ہے کہ "کیا ہم ہر کام میں ہی شدت پسند ہیں یا ہم میں سے اصول و ضوابط
نامی چڑیا ہی اُڑ چکی ہے"۔۔۔؟؟؟
ہم
جس کام کے پیچھے پڑتے ہیں ، کرتے ہی چلے جاتے ہیں، بنا سوچے سمجھے، اگر اُس دن خاکروب
نہ ہوتے اور کسی مین ہول کا ڈھکن کوئی "انکل چرسولا" اپنا
"سُوٹا" لگانے کیلئے ہی لے گیا ہوتا،
تو پھر اس لڑکی کیلئے کون اپنے آپ کو غلاظت میں ڈالتا، گرمی کا موسم تھا،
اور افراد بھی چند ایک ہی آ جا رہے تھے، یا پھر کسی کی نظر نہ پڑتی ، تو
کون اُسے نکالتا۔۔۔۔۔؟؟؟
دوسری بات
، اس وقت اس نام نہاد " سوشل میڈیا
" کی وجہ سے جرم اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے اور اتنی زیادہ آزادی اور آزاد خیالی
کا شیطان ہمارے سروں پہ سوار ہوگیا ہے کہ ہمیں کوئی جوابدہی کا خوف ہی نہیں رہا۔
سوشل میڈیا کی سوشل بیماریاں:
٭ انسان کا لاشعور ہر وقت مصروف رہنا۔
٭ دوسروں کے کامیاب "پروفائل " کو دیکھ کر احساسِ کمتری کا شکار ہونا۔
٭ ہر وقت لاشعور میں دوست احباب کے پیغامات کا انتظار رہنا۔
٭ بار بار وقت بے وقت کسی پوسٹ کیلئے دماغ کا اُلجھے رہنا۔
٭ ہر قسم کے گروپس میں شامل ہونا اور ہر قسم کے دوسروں کے خیالات (کمنٹس) پڑھ کے دماغ کا اُلجھے رہنا۔
٭ دوست احباب کے ساتھ تصاویر کا تبادلہ اور پھر لاشعور کا بعد میں احتیاط سمجھانے کی ناکام کوشش کرنا۔
٭ سوشل میڈیا ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا پہ وقت گزارنے والوں میں "تنہائی پسندی" کا رحجان بڑھ جاتا ہے۔
٭ سٹیٹس اپ ڈیٹ کے چکر میں جرائم پیشہ افراد سے انجانے میں رابطے میں آ جانا۔
٭ اپنے سے متعلق ہر وقت اور ذاتی معلومات کا تبادلہ بھی نقصان یعنی اغوا اور اسی قسم کے دوسرے جرائم کا باعث بن رہا ہے۔
ہم کس طرف جا رہے ہیں،،،،،؟؟؟
اس وقت اغوا ، اور لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کے ساتھ بھی ریپ کی تعداد ہمارے وطن میں اسقدر بڑھ چکی ہے کہ کوئی حدہی نہیں رہی،،،،،!!!
اکثر ہم ہمسایہ ملک کے ریپ کیسوں کے بارے میں پوسٹیں اسی" آنٹی فیس بک" پہ پڑھتے ہیں تو ہمارے ہاں بھی یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ وہ لوگ بیان کر دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں "عزت کے مارے" بہت سے والدین اپنی بہنوں بیٹیوں کو "چُپ کا زہریلا پیالہ" پلا کے خاموش کر دیتے ہیں،کہ کل کو اس لڑکی کی شادی بھی کرنی ہے،
بیاہنا بھی ہے اسے،
کہیں کسی کو پتہ چل گیا تو کوئی رشتہ نہ لینے آئے گا ،
بدنامی ہوگی۔
ٹھیک ہے یہ سب باتیں،،،،،!!!
مگر ساتھ میں آزادی کیوں اس قدر دے رہے ہو کہ واپسی کےسب راستے بند ہوتے جا رہے ہیں،،،،،،
کیوں ۔۔۔۔ آخر کیوں ۔ ؟؟؟
٭ انسان کا لاشعور ہر وقت مصروف رہنا۔
٭ دوسروں کے کامیاب "پروفائل " کو دیکھ کر احساسِ کمتری کا شکار ہونا۔
٭ ہر وقت لاشعور میں دوست احباب کے پیغامات کا انتظار رہنا۔
٭ بار بار وقت بے وقت کسی پوسٹ کیلئے دماغ کا اُلجھے رہنا۔
٭ ہر قسم کے گروپس میں شامل ہونا اور ہر قسم کے دوسروں کے خیالات (کمنٹس) پڑھ کے دماغ کا اُلجھے رہنا۔
٭ دوست احباب کے ساتھ تصاویر کا تبادلہ اور پھر لاشعور کا بعد میں احتیاط سمجھانے کی ناکام کوشش کرنا۔
٭ سوشل میڈیا ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا پہ وقت گزارنے والوں میں "تنہائی پسندی" کا رحجان بڑھ جاتا ہے۔
٭ سٹیٹس اپ ڈیٹ کے چکر میں جرائم پیشہ افراد سے انجانے میں رابطے میں آ جانا۔
٭ اپنے سے متعلق ہر وقت اور ذاتی معلومات کا تبادلہ بھی نقصان یعنی اغوا اور اسی قسم کے دوسرے جرائم کا باعث بن رہا ہے۔
ہم کس طرف جا رہے ہیں،،،،،؟؟؟
اس وقت اغوا ، اور لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کے ساتھ بھی ریپ کی تعداد ہمارے وطن میں اسقدر بڑھ چکی ہے کہ کوئی حدہی نہیں رہی،،،،،!!!
اکثر ہم ہمسایہ ملک کے ریپ کیسوں کے بارے میں پوسٹیں اسی" آنٹی فیس بک" پہ پڑھتے ہیں تو ہمارے ہاں بھی یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ وہ لوگ بیان کر دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں "عزت کے مارے" بہت سے والدین اپنی بہنوں بیٹیوں کو "چُپ کا زہریلا پیالہ" پلا کے خاموش کر دیتے ہیں،کہ کل کو اس لڑکی کی شادی بھی کرنی ہے،
بیاہنا بھی ہے اسے،
کہیں کسی کو پتہ چل گیا تو کوئی رشتہ نہ لینے آئے گا ،
بدنامی ہوگی۔
ٹھیک ہے یہ سب باتیں،،،،،!!!
مگر ساتھ میں آزادی کیوں اس قدر دے رہے ہو کہ واپسی کےسب راستے بند ہوتے جا رہے ہیں،،،،،،
کیوں ۔۔۔۔ آخر کیوں ۔ ؟؟؟
No comments:
Post a Comment