سردی کا یخ بستہ موسم
اور ایک دن آدھی رات کا وقت ہوا ،مدینہ منورہ کے باشندے اپنے اپنے گھروں میں بسترِ استراحت میں
محوِ خواب ہیں۔ اُس سرد آدھی رات کے وقت اس پاک شہر میں ایک نقاب پوش اپنے ایک
ساتھی کے ہمراہ شہر کا چکر لگا رہا ہے اور ہر گلی کوچہ اور ایک ایک مکان کو غور سے
دیکھتا ہوا جا رہا ہے۔ اچانک ایک مکان سے دھندلی سی روشنی نقاب پوش اور اُ سکے
ساتھی کو نکلتی ہوئی دکھائی دی۔ نقاب پوش وہاں رُک گیا اور اپنے ساتھی سے مخاطب ہو
کر کہنے لگا، "تم نے دیکھا، اس مکان سے روشنی آشکار ہے اور میرے خیال میں
صاحبِ خانہ بیدار ہیں۔"
ساتھی بولا،"
ہاں حضور ! ایسا ہی لگ رہا ہے اور سُنیں،یہاں تو بچوں کے رونے کی آوازیں بھی آ رہی ہیں اور
دیکھئے شاید یہ بچوں کی ماں ہے جو اُنہیں سمجھا رہی ہے اور چُپ کروا رہی ہے۔"
نقاب پوش بولا،
" خاموش رہ کر سُنو اور غور کرو کہ
یہ قصہ کیا ہے؟"
چنانچہ وہ نقاب پوش
اور اُسکا ساتھی ہمہ تن گوش ہو کر مکان سے آنے والی آوازیں سُننے لگے اور اُنہوں
نے سُنا کہ مکان کے اندر بچوں اور اُن کی ماں کے درمیان یہ گفتگو ہو رہی ہے۔
ایک بچہ: امی جان !
کتنا وقت گذر گیا ہے ۔ آدھی رات ہونے کو آئی ہے اور ابھی تک نہ ہنڈیا پکی اور نہ
ہم نے کچھ کھایا۔
دوسرا بچہ: امی ! یہ
دیکھ ، تیرا یہ بچہ بھوک سے مر رہا ہے ۔ خدارا کچھ کھانے کو دو۔ امی جان! کچھ
کھانے کو دو۔
تیسرا بچہ: (روتے ہوئے) یااللہ! ہم پر رحم فرما اور ہماری
ہنڈیا کو جلد پکا دے تاکہ ہم کچھ کھا سکیں اور اپنی جانیں بچا سکیں۔
ماں : میرے بچو!
گھبراؤ نہیں ۔ صبر کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ یہ دیکھو ، میں نے تمہارے سامنے
ہی ہنڈیا چڑھا رکھی ہے۔ اللہ کو منظور ہوا تو ابھی اس صبر کا پھل پاؤ گے، اور سب
مل کر کھانا کھاؤ گے۔
یہ گفتگو سُن کر وہ
نقاب پوش اپنے ساتھی کے ساتھ مکان کے اندر پہنچ گیا۔ بچے اور اُنکی ماں ایک اجنبی
نقاب پوش اور اُسکے ساتھی کو دیکھ کر گھبرا گئے، اور لمحہ بھر بعد وہ عورت بولی ،
" تم کون ہو اور میرے مکان کے اندر کیوں آئے ہو؟"
نقاب پوش: "بہن
! میں اس وقت اپنے ایک کام کے سلسلے میں تمہارے مکان کے پاس سے گزر رہا تھا کہ میں
نے تمہاری اور تمہارے بچوں کی دردناک گفتگو سُنی تو میرا دل تمہاری گفتگو سے تڑپ
کر رہ گیا۔ معاف کرنا۔ میں اصل قصہ معلوم کرنے کیلئے اندر آگیا ہوں۔"
عورت: "بھائی!
تم اپنی راہ لو۔ نہ جان نہ پہچان۔ مجھ بدنصیب کا قصہ سُن کر کیا کر لوگے؟ اگر سُن
لو گے تو میرا کیا فائدہ اور اگر نہ سُنو
گے تو تمہارا کیا نقصان؟"
نقاب پوش: "میری
التجا ہے کہ مجھے اصل واقعہ سے آگاہ کرو۔"
عورت : " اچھا
تو بھائی سُن لو ! مجھے امیر المومنین عُمر سے شکایت ہے۔ وہ ہمارا امیر ہے۔ اللہ
نے اُسے ہماری حفاظت اور خدمت کیلئے خلافت
کی مسند پر بٹھایا ہے۔ مگر اُس (عُمر) نے مجھ بیوہ غریب عورت کی خبر نہ رکھی۔ دو
روز سے میں اور میرے یتیم بچے فاقہ سے ہیں۔ آج میرے بچے جب بھوک سے نڈھال ہوگئے تو
میں نے محض اِن کا دل بہلانے کیلئے اول شب سے ہنڈیا چولہے پہ چڑھا رکھی ہے، اور
ہنڈیا میں فقط پانی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسے ہی ان کو تسلیاں دیتے دیتے
صبح ہو جائے گی اور صبح پھر جو اللہ کو منظور ہوا، ہو گا۔ افسوس! امیر المومنین کو
میرے اِن یتیم اور بھوکے بچوں کا کچھ پتہ نہیں ۔"
نقاب پوش:(غمزدہ آواز میں) بہن ! لیکن عُمر کو کیا خبر؟ کہ تم لوگ اس حال میں ہو ۔ تم نے
کیوں اُس ( عُمر) تک پہنچ کر اُسے اپنے حالات سے آگاہ
کیوں نہیں کیا؟"
عورت: "واہ
بھائی واہ! خلیفہء وقت کو جب اللہ نے رعایا کی حفاظت اور اور خیال رکھنے کیلئے
مقرر فرمایا ہے تو یہ خلیفہ کا اپنا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی ساری رعایا کے حالات
سے باخبر ہو ۔ اگر خلیفہ ہی اپنی رعایا کے حالات سے ہی بے خبر ہے تو پھر اُسے
مسندِ خلافت پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔ آج اُس نے میرے اِن یتیم بچوں کی خبر گیری
نہیں کی تو کل میں قیامت کے دن انشاء اللہ آقا کریم ﷺ کے سامنے عُمر کی شکایت کروں
گی۔"
نقاب پوش یہ بات سنکر
رونے لگا اور فوراََ مکان سے نکلا اور تھوڑی دیر کے بعد اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری
اُٹھائے ہوئے اندر داخل ہوا اور بوری کو پیٹھ سے اُتارا اور اپنے کپڑے جھاڑے اور
اپنے ساتھی سے مخاطب ہوا۔
نقاب پوش:
"الحمد للہ ! آٹے کی بوری میں خود ہی اُٹھا کر لے آیا۔"
ساتھی: "حضور!
میں نے عرض کی تھی کہ میں بوری اُٹھا لاتا ہوں مگر آپ نے میری عرض کو قبول ہی نہیں
فرمایا۔"
نقاب پوش:
"افلح (نقاب پوش کے ساتھی کا نام) کیا قیامت کے دن بھی میرا بوجھ اُٹھا لو گے؟ اگر نہیں،
تو پھر یہاں بھی مجھی کو یہ بوجھ اُٹھانا مناسب تھا۔"
عورت:( یہ منظر دیکھ کر)بھائی! اللہ تم پر ہزار رہزار برکتیں
نازل فرمائے ۔ تم تو کوئی فرشتہ خصلت انسان ہو۔ میں تو اب بہت شرمندہ ہوں کہ اپنا
قصہ تمہیں سنا کر ناحق مشقت میں ڈالا۔"
نقاب پوش: "بہن
! آپ ان باتوں کو رہنے دیجئے اور مجھے میرا فرض ادا کرنے دیجئے۔"
پھر نقاب پوش نے خود
ہی آٹا گوندھااور خود ہی آگ سُلگائی۔ نقاب پوش کے ساتھی کا بیان ہے کہ چولہے میں
پھونکیں مارتے ہوئے میں نے نقاب پوش کی داڑھی سے دھواں نکلتے دیکھا۔
روٹیاں بھی خود ہی
اُس فرشتہ خصلت انسان نے پکائیں اور پھر اُن بچوں کو کھلائیں اور پھر اُن روتے
ہوئے بچوں کو کھانا کھلا کر خوش طبعی کی باتیں کرکرکے ہنسایا اور کہا ، "میں
چاہتا ہوں کہ جن آنکھوں سے میں اِن بچوں کو روتے ہوئے دیکھا ہے ، ان ہی آنکھوں سے
اِنہیں ہنستا ہوا بھی دیکھوں۔"
نقاب پوش کا یہ رحم
بھرا سلوک دیکھ کر وہ عورت بہت متاثر ہوئی ار بولی۔
عورت: "اے نیک
دل انسان ! تم نے تو کمال کردیا اور ہم غریبوں کو خوشحال کر دیا۔"
نقاب پوش: "بہن!
کیا واقعی تم مجھ سے خوش ہو ۔"
عورت : اللہ گواہ ہے
بھائی ! میں تم پر بہت خوش ہوں۔"
نقاب پوش: "تو
پھر میری خاطر عمر کا قصور معاف کردے۔ بہن ! کل قیامت کے دن عُمر کی شکایت آقا
کریم ﷺ سے نہ کرنا۔"
عورت: "مگر تم
امیر المومنین کی اتنی کیوں پاسداری کر رہے ہو بھائی؟"
نقاب پوش: "
بہن! تم پہلے اُسے( عُمر) کو معاف کر دو پھر میں اس پاسداری کی وجہ بتاؤں گا۔"
عورت: "اچھا
بھائی! میں نے عُمر کو تمہاری خاطر معاف کر دیا۔ مگر یہ دعا ضرور کرونگی کہ اللہ
عُمر کو مسندِخلافت سے ہٹائے اور تمہیں خلافت کی مسند عطا فرمائے۔"
نقاب پوش: " تو
سُن لے بہن! تیری یہ دعا بھی رائیگاں نہیں گئی۔"
عورت: " وہ کیسے
بھائی۔"
نقاب پوش(نقاب کو منہ سے ہٹاتے ہوئےبولا) "بہن ! ادھر دیکھو۔"
عورت حیران و ششدر رہ
گئی۔ وہ گھبرائی سی بولی: "اے امیر المومنین ! آپ نےخود میرے بچوں کیلئے سب کچھ کیا۔"
امیر المومنین:
"اےبہن!گھبراؤ نہیں۔ تم نے جو کچھ کہا وہ سب سہی تھا اور میں نے جو کچھ کیا وہ میرا فرض
تھا۔" یہ کہہ کر امیر المومنین حضرت عُمرفاروق وہاں سے رخصت ہوئے۔
٭
٭
٭ مزید پڑھئے : سلطان محمد فاتح: ایک عظیم مسلمان حکمران ......!!!
٭
٭
٭ مزید پڑھئے : سلطان محمد فاتح: ایک عظیم مسلمان حکمران ......!!!
No comments:
Post a Comment