حج کا موسم تھا اور
دنیائے اسلام کے حاجی حج کیلئے عازمِ سفر تھے۔ وہ پیدل حج کا زمانہ تھا۔ لوگ اپنی
سواریوں کیساتھ قافلوں کی صورت میں جایا کرتے تھے۔ ایسے سفر کو "پیدل حج
" کا زمانہ کہا جاتا تھا۔ ایسے میں بہت سے قافلے ڈاکوؤں اور راہزنوں کے
ہاتھوں لُٹ جایا کرتے تھے۔
ڈاکوؤں کا ایک گروہ
قافلے لوٹنے اور ڈاکہ زنی کیلئے ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں ویران راستہ تھا اور صرف
کھجور کے تین درخت تھے۔ ان درختوں میں ایک درخت خشک تھا اور دو درخت پھلدار تھے ۔ ڈاکو وہاں آرام کیلئے
لیٹے تو ڈاکوؤں کے سردار نے دیکھا کہ ایک چڑیا کھجور کے ایک پھلدار درخت سے اُڑ کر
خشک درخت پر جا بیٹھتی ہے اور تھوڑی دیر کے بعد پھر وہاں سے اُڑتی ہے اور پھلدار درخت
پر جا بیٹھتی ہے اور وہاں سے اُڑ کر پھر اُسی خشک درخت پر آ بیٹھتی ہے۔ اسی طرح
چڑیا نے بہت سے چکر دونوں درختوں کے درمیان لگائے۔
سردار نے کافی دیر یہ
منظر دیکھتا رہا تو تجسس سے رک نہ پایا اور خشک درخت پر جا چڑھا۔ اوپر جاکر سردار
نے دیکھا کہ ایک اندھا سانپ اُس خشک درخت کی سب سے اوپر کی بلند ٹہنی سے لپٹ کے
بیٹھا ہوا ہے اور سانپ نے اپنا منہ مستقل کھول رکھا ہے۔ وہ چڑیا اُس سانپ کیلئے
کچھ لاتی ہے اور سانپ کے منہ میں ڈال دیتی ہے۔ سردار نے یہ منظر دیکھا تو بہت
متاثر ہوا اور وہیں کہنے لگا۔
"اے اللہ ، اے
سارے جہانوں کے مالک! یہ سانپ ایک موذی جاندار ہے جس کے رزق کیلئے تُو نے ایک ننھی
چڑیا مقرر فرما رکھی ہے۔ پھر میرے لئے جو کہ اشرف المخلوقات میں سے ہوں۔ یہ ڈاکہ
زنی اور لوٹ مار کب مناسب ہے؟"
سردار کا یہ کہنا تھا
کہ غیب سے یہ آواز سردار کو سنائی دی۔ "میری رحمت کا دروازہ ہمیشہ اور ہر وقت
کھلا ہے ، اب بھی توبہ کر لو تو میں (اللہ) قبول کر لوں گا۔"
سردار نے غیب کی یہ
آواز سُنی تو پشیمانی سے رونے لگا اور نیچے اتر کر سردار نے اپنی تلوار توڑ ڈالی
اور رونے اور گڑگڑانے لگا "یا اللہ ! میں اپنے گناہوں سے باز آیا، میری توبہ
قبول فرما لے اے اللہ۔"
غیب سے پھر آواز آئی،
" ہم نے تیری توبہ قبول کر لی۔"
سردار کے ساتھیوں نے
یہ سب ماجرا دیکھا تو اپنے سردار سے دریافت کیا "سردار کیا بات ہے؟"
سردار نے سارا ماجرا
اپنے ساتھیوں کو کہہ سنایا تو وہ سب بھی رونے لگے اور فریاد کرنے لگے کہ ہم اپنے
کریم مالک، اپنے اللہ سے توبہ کے خواستگار ہیں اور ڈاکہ زنی اور لوٹ مار سے تائب
ہوتے ہیں۔ چنانچہ سردار کے ڈاکو ساتھیوں نے بھی سچے دل سے توبہ کی اور بہ ارادہ حج
سارے مکہ مکرمہ کی طرف چل پڑے۔
تین دن کی مسافت طے
کرنے کے بعد ایک گاؤں میں پہنچے تو وہاں گاؤں کے راستے میں ایک نابینا بڑھیا دیکھی
جو راستے کے آتے جاتے لوگوں سے اس "ڈاکو سردار" کا نام پوچھتی پھر رہی
تھی کہ اس جماعت میں وہ سردار بھی ہے۔
سردار نے جب اپنا نام
سنا تو آگے بڑھا اور کہنے لگا "اے ضعیفہ! ہاں میں ہوں ۔ کہو کیا بات
ہے؟"
بڑھیا اُٹھی اور قریب
ہی اپنے گھر سے کپڑے نکال لائی اور کہنے لگی، "چند روز ہوئے میرا ایک بیٹا
انتقال کر گیا ہے ۔ یہ اُس کے کپڑے ہیں۔ مجھے تین رات سے متواتر حضور ﷺ نے عالمِ
خواب میں تشریف لا کر تمہارا نام لیکر ارشاد فرمایا ہے کہ وہ آ رہا ہے، اپنے بیٹے
کے یہ کپڑے اُسے دے دینا۔ لہذا اے مرد خوش نصیب! یہ اپنی امانت لو اور سفر حج کو
جاری کرو۔"
سردار یہ سب سُن کر
عالمِ وجد میں آ گیا، اللہ کے حضور سربسجود ہوا ۔ وہ کپڑے پہنے اور آقا کریم ﷺ پہ
درودوسلام عرض کرتا ہوا مکہ معظمہ جا حاضر ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ کے مقبول لوگوں
میں شمار ہونے لگا۔یہ سب سچی توبہ اور سچے دل سے اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے
اعلیٰ اصولوں کو اپنانے کا حاصل ہے، پھر ہدایت بھی جاری ہو جاتی ہے اور زندگی کے
کانٹے پھولوں کی طرح رستہ دیتے ہیں۔
اللہ رب العزت ہم سب
کو بھی دینِ اسلام کی صحیح سمجھ ، اللہ کے رستے پہ چلنے والا اور اپنے ہدایت یافتہ
لوگوں میں ہمیں بھی شامل فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
٭
٭
٭ مزید پڑھئے: گشت ..... PATROLLING
٭
٭
٭ مزید پڑھئے: گشت ..... PATROLLING
No comments:
Post a Comment