حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے جب کشتی بنانا شروع
کی تو ایک مومنہ بڑھیا نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بڑھیا نے حضرت
نوح علیہ السلام سے پوچھا ، " اے نبی اللہ ! آپ ؑ یہ کشتی کیوں بنا رہے ہیں؟"
حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا، " بڑی بی! میں یہ
کشتی اللہ کے حکم سے بنا رہا ہوں۔ اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑا پانی کا عذاب آنے
والا ہے جس میں تمام کفار غرق ہو جائیں گے اور مومن اس کشتی میں سوار ہو کر بچ
جائیں گے۔"
بڑھیا نے نوح علیہ السلام سے عرض کی، " اے نبی اللہ!
جب طوفان آنے والا ہو تو مجھے بھی خبر کر دیجئے گا تاکہ میں بھی کشتی میں سوار ہو
جاؤں۔"
نوح علیہ السلام نے حامی بھر لی ۔ بڑھیا کی جھونپڑی شہرسے
باہر کچھ فاصلہ پر واقع تھی۔ پھر جب طوفان کا وقت آیا تو حضرت نوح علیہ السلام
دوسرے لوگوں اور جانوروں کے جوڑوں کو کشتی پر سوار کرنے میں مشغول ہو گئے کہ اُس
بڑھیا کا خیال نہ رہا۔حتیٰ کہ اللہ کا ہولناک عذاب پانی کے طوفان کی شکل میں آیا
اور روئے زمین کے تمام کفار تباہ و برباد
اور ہلاک ہو گئے۔اور جب یہ عذاب تھم گیا اور زمین سے پانی اُتر گیا اور کشتی والے
کشتی بخیرو عافیت اُترے تو وہ بڑھیا بھی حضرت نوح علیہ السلام کی خدمت میں پھر
حاضر ہوئی اور پوچھنے لگی، " اے نبی اللہ ! وہ اللہ کا عذاب اور پانی کا
طوفان کب آئے گا۔ میں ہر روز اس انتظار میں ہوں کہ آپ علیہ السلام کب کشتی میں سوار ہونے کیلئے
فرماتے ہیں۔"
نوح علیہ السلام نے فرمایا، " بڑی بی! طوفان تو آ بھی
چکا اور تمام کفار ہلاک بھی ہو چکے اور اس کشتی کے ذریعے اللہ نے اپنے مومن بندوں
کو بچا لیا۔ مگر تعجب ہے کہ تم زندہ کیسے بچ گئیں، تم تو کشتی پہ سوار نہیں
تھی۔"
بڑھیا بولی، " اچھا یہ بات ہے توپھر اُسی اللہ نے جس
نے آپ علیہ السلام اور سب کو کشتی کے ذریعے بچا لیا۔ مجھے میری ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی
کے ذریعے ہی بچا لیا۔"
٭
٭
No comments:
Post a Comment