مصر کا دریائے نیل ہر
سال خشک ہو جاتا تھا اور پورے مصر میں قحط کی صورتحال سی بن جایا کرتی تھی
اور جب تک اہلِ مصر ایک کنواری حسین اور خوبصورت لڑکی کی بھینٹ نہیں چڑھاتے تھے تب
تک دریائے نیل خشک رہتا اور جاری نہ ہوتا تھا۔ یہ کیفیت اسلام سے پہلے تک رہی ۔
حتٰی کہ حضرت عُمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں مصر فتح ہوا اوربعد از
فتح حضرت عُمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مصر کے گورنر مقرر کئے گئے تو کچھ عرصہ کے
بعد حضرت عُمر بن العاص کے بھی عہدِ گورنری میں بھی دریائے نیل خشک ہو گیا۔ آپ
کو جب دریائے نیل کے خشک ہونے کی اطلاع دی گئی۔
آپ نے مصرکے مقامی لوگوں سے دریافت کیا ،
"کیا دریائے نیل ہر سال اِسی طرح خشک ہو جاتا ہے؟"
لوگوں نے
بتایا،"ہاں جنابِ گورنر! دریائے نیل اِسی طرح ہر سال خشک ہو جاتا ہے اور جب
تک ہم لوگ ایک کنواری خوبصورت اور حسین دوشیزہ کی بھینٹ نہ چڑھائیں ، تب یہ دریا
جاری نہیں ہوتا۔ اور ہر طرف خشک سالی پھیل جاتی ہے۔"
گورنر حضرت عُمروبن
العاص نے فرمایا،"اے اہلِ مصر! یہاں اب دینِ اسلام کا بول بالا ہے، اور
اسلام میں ایسی کسی معاملہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ جو سال بہ سال ایک بے گناہ
لڑکی کا ناحق قتل اور خون کیا جاتا ہے دریا کے پانی کو جاری رکھنے کیلئے۔ دینِ
اسلام کو یہ سب منظور نہیں۔ اس لئے میری اہلِ مصر سے درخواست ہے کہ صبر کرو اور
دیکھو کہ اللہ رب العزت کو کیا منظور ہے۔"
گورنر حضرت عُمرو بن
العاص نے اپنے تمام مشیران بلائے، باہم مشورے ہوئے اور اس بلائے ناگہانی سے
نبٹنے کی سوچ بچار کی گئی مگر کسی سے بھی اس مسئلہ کا حل نہ نکلا۔ تو فوراََ اُسی
دن ایک قاصد تیار کیا گیا۔ حضرت عُمروبن العاص ؓنے ایک تفصیلی خط خلیفہء وقت حضرت
عُمرفاروق کے نام لکھا جس میں ہر سال دریائے نیل کے خشک ہو جانے اور کنواری لڑکی
کے ناحق قتل و خون اور بھینٹ کا واقعہ مفصل لکھا اور قاصد ان تفصیلات بھرا خط لے
کر دارلخلافہ مدینہ منورہ کو روانہ ہوا۔ قاصد جب خط لے کر حضرت فاروقِ اعظم رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پہنچا۔ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ کو جب خط سے تمام کیفیت
معلوم ہوئی تو اُسی وقت آپ نے ایک خط گورنر حضرت عُمروبن العاص کے نام اور ایک
خط دریائے نیل کے نام تحریر فرمایا۔ دریائے نیل کے نام لکھے گئے خط کا مضمون جو کہ
تاریخی کتب میں درج ہے یہ تھا: " یہ خط اللہ کے بندے عُمر بن الخطاب کی طرف
سے دریائے نیل کے نام ہے۔ اے دریا! اگر تُو اللہ کے حکم سے بہتا تھا تو ہم اب بھی
تمہارا جاری ہونا اللہ وحدہ لاشریک سے مانگتے ہیں اور اے دریا! اگر تُو اپنی مرضی
سے بہتا ہے اور اپنی ہی مرضی سے رُک جاتا ہےتو ہمیں تیری کوئی پرواہ نہیں اورتیری کوئی ضرورت نہیں ہے۔"
پھر حضرت عُمر رضی
اللہ عنہ نے گورنر مصر حضرت عُمرو بن العاص کے نام یہ حکم نامہ لکھا کہ کسی لڑکی
کے ناحق قتل اور خون کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی لڑکی کو دریا کے سپرد کیا جائے۔
بلکہ گورنر مصر خود یہ میرا خط دریا کے اندر جا کے خشک ریت میں ڈال دے۔
امیرالمومنین حضرت
عُمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دارلخلافہ مدینہ منورہ سے یہ انوکھا حکم نامہ اور
ارشاد جب مصر میں قاصد نے پہنچایا تو سارے مصر میں اس حکم نامے کی دھوم مچ گئی۔ لاکھوں
لوگ یہ منظر بہ چشمِ نظر دیکھنے کیلئے دور دور سے سفر کرتے ہوئے دریائے نیل کے
کنارے پہنچ گئے۔ مجمع کثیر کے ساتھ گورنر مصر حضرت عُمرو بن العاص بھ حضرت عُمر
فاروق رضی اللہ عنہ کا دریا کے نام لکھا گیا حکم نامے کا خط لے کر دریا پر پہنچے
اور پھر حضرت عُمرو بن العاص نے حکم نامے کے مطابق دریائے نیل میں خود اُترے اور
پھر دریا کے اندر جا کر حضرت فاروقِ اعظم
رضی اللہ عنہ کا خط دریا کے درمیان خشک ریت میں دبا کر وہاں سے باہر چلے
آئے۔ چند ہی لمحوں بعد پانی کی لہر اُفق سے اُبھرتے ہوئے سورج کی طرح دریا ئے نیل
کی خشک زمین پہ بھاگتی ہوئی نظر آئی اور پھر دریائے نیل خودبخود اِس زور شور سے
پانی کے بہاؤ میں جاری ہوا کہ کبھی لڑکی کی بھینٹ لے کر بھی ایسا جاری نہ ہوا تھا
اورگذشتہ سالوں سے اِس سال دریائے نیل میں پانی چھ گز اونچا آیا اور کناروں سے
ٹکراتا ہوا بہنے لگا۔ پھر حضرت عُمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اُس حکم نامے کے دن سے
دریائے نیل ایسا جاری ہوا کہ آج تک دریا نے خشک ہونے کا نام ہی نہیں لیا۔اسی دریائے نیل کے کنارے گورنر حضرت عُمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم مسجد بھی تعمیرہوئی تھی جو کہ آج بھی دریائے نیل کے کنارے موجود ہے۔یہی دریائے نیل فرعون کے غرق ہونے کا باعث تھا جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔
مزید پڑھئے : سلطان محمد فاتح: ایک عظیم مسلمان حکمران......!!!
No comments:
Post a Comment