٭٭٭ جدید موبائل اور ہم٭٭٭
ؔایسے موبائل سے ہم باز آئے
جو
آنکھوں کو تھکائے ستائے گھمائے
وئی
ہم نے بھی جدید دنیا میں پاؤں رکھنے کی کوشش کی
قسم
سے سِر درد لگ گئی
ہمارا
بھتیجا ہمیں ایک موبائل فون گفٹ کر گیا کہ
" چچا اس سے میرے ساتھ رابطہ رکھا کریں
کمپیوٹر
پہ مجھے آپ کے آن لائن آنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے"
لیجئے
، ہم پچھلے پانچ چھ دن سے موبائل سے نبردآزما ہیں
بھتیجا
تو واپس پردیس سدھار چکا
(موبائل نہ بھی گفٹ کرتا تب بھی ہماری دعائیں اپنے بچے کے ساتھ تھیں
اور ہمیشہ رہیں گی)
"چچا، آپ بھی نئی دنیا
میں تھوڑا شامل ہو جائیں ، کمپیوٹر اب پرانا ہو چکا، چھوٹے چھوٹے بچے موبائل
استعمال کرتے ہیں اورآپ ابھی تک اس پرانے ڈبے(میرے کمپیوٹر کی تعریف) کے ساتھ چپکے
ہوئے ہیں۔ دنیا جدید ہو گئی ہے، ہر طرف موبائل فون کا راج ہے، رابطہ اب چٹکیوں میں
ہے۔ روزکی روز انسان پردیس میں بھی ایک دوسرے کو دیکھ اور بات کر لیتا ہے---"
بھتیجے
نے ہلکی پھلکی تقریر کی اور داد طلب نظروں سے دیکھا۔
"اچھا بھئی، جیسے تمہاری مرضی--- ہم بھی موبائل فون چلا لیتے ہیں--- فیس بک اور جو بھی تم کر دو---
بس،وہ ضروری چیزیں کرنا جس سے باآسانی تم سے
گپ شپ ہو سکے---"
ہم
نے بھی گویا "ہاں" کر دی کہ بچے کا دل نہ ٹوٹے۔
اور
آدھ گھنٹے بعد---" یہ لیں چچا، اس میں اب فیس بک بھی ہے، سکائیپ پہ ویڈیو گپ
شپ بھی ہے--- ایمو پہ بھی بات ہو سکتی ہے اگر کسی وقت نیٹ سُست ہو اور یہ دیکھیں---"وٹس
ایپ" پہ اس طرح مائیک کو پریس کرکے پیغام ریکارڈ کروایا جاتا ہے جس سے آواز
اور ویڈیو کا رابطہ اور یہ دیکھیں میرا وٹس ایپ اکاؤنٹ ---جس میں آپ میری تصویریں دیکھ سکتے ہیں---"
ہم
نے بھی بچے کی خوشی پوری کی---
"واہ یارا، اس کا مطلب ہوا کہ تم سے ہر لمحہ رابطہ رہے گا---"
ہم
نے بھی خوب خوشی دکھائی مگر یہ کیا---
چھوٹی سی سکرین پہ نظریں گھما
گھما کے سر درد اور ---
پھر اردگرد کا کچھ ہوش نہ رہا--
ننھی گڑیا کب "سادہ فون"
اٹھا لے گئی اورپانی بھرے جگ میں فون جا پھینکا--
کچھ پتہ نہ چلا--
بھرجائی
کی للکار سے کچھ کچھ ہوش آئی کہ کچھ ہوا ہے اور جا کے دیکھا --
غصہ بھی بہت آیا مگر اب اس معصوم کو کیا کہوں--
ابھی
تین سال کی تو ہے-- ڈانٹوں تو منہ بسورتی رہے گی-- اور چپ سادھ لی---!!
وہ
تو "تایا ابو" کی نجانے کتنی آوازیں اپنی توتلی زبان میں لگاتی رہی اور "اچھا"--"ہوں"--"ایک
منٹ بیٹا" کے بے ربط جملوں کے بعد اُس نے توجہ نہ پا کے اپنا کام کر دیا---!!
ہاں
، کچھ دنوں کی عادت سے آس پاس کی بھی خبر رہے گی۔ مگر وہ خبرداری کسی کام کی نہیں
جس میں اعصاب کو اپنے ہاتھوں خود تباہ کرنے کا سامان کیا جائے---!!
ایک
بہت پیارا لڑکا--- عمر صرف 23/24سال--- آنکھوں کی بیماری میں مبتلا دیکھا--- بیماری
کیا--- 180 درجے کے زاویئے سے اُس کی آنکھیں گھوم جاتی ہیں اور نزدیک دور --- دونوں
میں ہی عینک کے بنا الفاظ پڑھنے---
حتیٰ
کہ چلنے پھرنے سے بھی عینک کے بنا قاصر ہے۔
وہ
ایک ادارے میں روزی روٹی کمانے سے ایسی حالت میں مبتلا ہوا کہ صبح آٹھ سے رات گیارہ
بجے تک انتہائی تیز ایل سی ڈی کی روشنی میں اس مرض میں پھنس گیا،
اِسی
طرح ایک دوست کی بچی ابھی چہارم جماعت کی طالبہ ہے اور عمر ابھی نو (9) سال ہے۔
بچپن
سے ہی "موبائل اور ٹیب" کی رَسیا بنی اور اب وہ بھی آنکھوں کے مرض کے
ساتھ ساتھ پٹھوں کے مرض میں بھی مبتلا ہو چکی ہے۔
وائی فائی بچوں اور
بوڑھوں کیلئے زہرِقاتل سے کم نہیں۔ وائی
فائی جہاں بھی رابطہ بناتا ہے، فضاء میں باقائدہ ایک سرکل بناتا ہے جس سے مطلوبہ
ٹارگٹ سے رابطہ کرتا ہے، ایسا سرکل آنکھوں، دماغ، کانوں اور گردن سے نیچے کمر سے
اوپرپٹھوں کے درد میں بھی اپنا فعل سرانجام دیتا ہے اور بعض وہ لوگ جن کی قوتِ
مدافعت کم ہے، ان میں کینسر کا بھی باعث بن رہا ہے-(الامان الحفیظ)!!
ہماری
عوام محض اپنے وقت کی بربادی اور صحت دونوں سے ہی خود کو"محروم" کرنے میں
مصروف ہے اور شدت سے مصروف ہے!!
موبائل
کی "میاؤں" بعد میں ہوتی ہے اور دماغ پہلے ہی اک دم متحرک ہو جاتا ہے،
جس سے دماغ کے خلیے وقت اور
عمر سے پہلےبوڑھے ہو رہے ہیں، ایسے میں دماغی بیماریاں کثرت سے پیدا ہو رہی ہیں، یقین
نہ ہو تو کسی بھی مینٹل ہاسپٹل کا چکر لگا لیں---
مگر---
کیا
کریں--- جدید بھی تو ہونا ہےنا---!!
خیر
ؔاب نہ چُھٹنے پائے گی جو منہ کو لگی ہے
اس
لئے ہم صرف موبائل پہ کالز ہی سنا کریں گے--- آہو
چُنی
آنکھیں کرکرے ہم فیس بک وغیرہ موبائل سے
کبھی بھی چلانا پسندنہیں کریں گے،
کیونکہ دماغ کی دہی بنانے کا
ہمارا کوئی ارادہ نہیں---!!
ویسے
بھی گھر اور دکان دونوں جگہ کمپیوٹرز موجود ہیں تو کاہے کی" موبائل سردردی"
لینی ہے!!
والسلام
تحریر:
سفیرِ حق(مشتاق اعوان)
پیشکش:
دُنیا پلس
مزید پڑھیئے: میزانِ عدل
No comments:
Post a Comment